کے بعد سنت فجر ادا فرماتے، اور پھر جماعت کھڑی ہونے تک تلاوت، ذکر واذکار اور دعا میں مشغول ومصروف ہوجاتے۔
فجر بعد کی مجلس:
نماز سے فراغت پر دفترِ نظامت میں جلوہ افروز ہوتے، تو بعضے آپ کے عقیدت مند، کارکنانِ امارت، اور ہم طلبہ بھی حاضرِ خدمت ہوجایاکرتے تھے ، اور اچھی خاصی مجلس جم جاتی تھی، جس میں آپ موقع ومحل کی مناسبت سے کبھی تو اپنے اساتذہ اور بزرگوں کے حالات وواقعات ، کبھی اپنے تجربات ومشاہدات، کبھی حالاتِ حاضرہ ـپر تبصرہ، کبھی مسلمانوں کے عدمِ اتحاد واتفاق پر اپنا کرب واضطراب ، کبھی قومی وملی مسائل اور ان کے حل کی تدبیریں، اور کبھی خالص علمی نکات بیان فرماتے، جس سے ہم خدام کو عظیم علمی خزانہ ہاتھ آجاتا، اور معلوم ہوتا کہ واقعۃً آپ ہر علم وفن میں معلومات کا خزانہ اور اپنی اعلیٰ نسبتوں کا مظہر ہیں۔مجلس کے اخیر میںتمام شرکاء مجلس کے لیے آپ کے جیب خاص سے چائے بسکٹ کا نظم ہوتا،جس کے لیے آپ نے ایک شخص کو مامور کر رکھا تھا۔
طلبۂ افتا وقضا کے ساتھ خیر خواہی:
احقر کے زمانۂ تدریب فی الافتاء ہی میں جامعہ رحمانیہ مونگیر میں کتاب ’’اسلام کے عائلی قوانین‘‘ کی تدوین کی مناسبت سے ملک کے معروف فقہاء؛استاذ محترم حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی برہان الدین صاحب سنبھلی دامت برکاتہم وغیرہ جمع ہوئے تھے، تو اِن بزرگوں سے استفادہ اور تربیتِ طریقۂ استنباط وتخریج کی غرض سے آپ رحمۃ اللہ علیہ ہم طلبۂ افتاء وقضاء کو بھی اپنے ہمراہ جامعہ