بیع وفاء
سوال:۱- بیع وفا کی بنیادی شکل یہ ہے کہ ایک آدمی ضرورت مند ہوتا ہے، غیر سودی قرض ملتا نہیں، اور سودی قرض لینا نہیں چاہتا، تو وہ اپنے کسی سامان (زمین وجائداد وغیرہ) کا سودا یوں کرتا ہے، کہ تم اتنی قیمت میں اس کو لے لو، اور اتنی مدت کے بعد یا جب بھی میں اس قیمت کو واپس کرنے کے حال میں ہوں، تو یہ سامان تم مجھ کو اسی قیمت پر دے دینا، کسی دوسرے سے مت بیچنا۔
معاملہ یہ ہے کہ خرید وفروخت سے بیچی جانے والی شئے بیچنے والے کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اور خریدنے والا اس کا مکمل مالک بن جاتا ہے، اور خرید کردہ شئے میں اس کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ کچھ بھی کرے؛ بیچے ، ہبہ کرے، کرایہ پر دے وغیرہ، اور فروخت کردہ شئے سے سابق مالک وفروخت کنندہ کا کوئی واسطہ نہیں رہ جاتا، بیع وفا کا معاملہ اس سلسلے میں اس سے مختلف ہے، تو اس بیع کی شرعی حیثیت اور اس کا حکم کیا ہے؟
یہ معاملہ جو بیع کے عنوان سے خاص قید وبند کے ساتھ ہوتا ہے، شرعاً منعقد اور درست ہے یانہیں؟ اگر شرعاً منعقد اور درست ہے، تو حکماً یہ بیع ہے یانہیں؟
[الف]: بیع قرار دینے پر یہ شرط کہ بعد میں کسی دوسرے سے نہ بیچا جائے، فروخت کنندہ ہی سے بیچا جائے، اس کا کیا حکم ہوگا؟
[ب]: مالکِ اول کو بیچنے میں سابق ادا کردہ قیمت ہی لازم ہوگی، یا اس سے زائد کا بھی مطالبہ کیاجاسکتا ہے؟
[ج]:خریدار جب تک اس کو اپنے پاس رکھے، تو اس سے فائدہ اُٹھانے کا کیا حکم ہوگا؟