جرائم کے ساتھ ساتھ اُن کے ذرائع پر بھی پابندی لگائی جائے ورنہ!!
’’۱۸ دسمبر کو دہلی میں ایک ۲۳؍ سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری نے پورے ملک کو شرم سار کردیا‘‘- یہ جملہ تھا لوک سبھا اسپیکر ’’ میرا کمار‘‘ کا ، اس سنگین واقعہ کی بازگشت ملک کے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے، عوام اور خود حکومت کے اہل کار ، حکومت سے سخت ترین اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں، اسی سلسلے میں ۲۰؍ دسمبر کو گرلز اسلامک آرگنائزیشن اور وِدیارتھی بھارتی طلبہ کی تنظیموں نے آزاد میدان میں احتجاج کیا، اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بلا تاخیر سخت قدم اٹھائے، پورے ملک کا اس واقعہ کی سنگینی کو محسوس کرنا اور اس کے خلاف سخت اقدامات کا حکومت سے مطالبہ کرنا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی ہم ہندوستانیوں کا ضمیر برائیوں کے خلاف نہ صرف بیدار بلکہ محاذ آرائی کے لیے تیار ہے، جو کسی بھی ملک وملت اور سماج ومعاشرے کے خیر وبھلائی پر قائم رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، مگر ! یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے مجرموں کے لیے سخت قانون بنانا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ، اس طرح کے واقعات آئندہ رونما نہ ہوں اس کے لیے کافی ہے، یا اس سے آگے بھی کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے؟؟
اس کے جواب کے لیے جب اسلامی قوانین پر نظر کی جاتی ہے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف برائی کو برائی قراردیا ، بلکہ اُس کے ذرائع کو بھی ممنوع قرار دے کر ، مرتکبین کے لیے بلا کسی تفریق سخت سزائیں متعین کی ، اور یہ بات معقول بھی ہے کہ جرم