کرکٹ کھیلنے کا شرعی حکم!
ہرایسا کھیل جو انسان کو اس پر واجب حقوق ’’خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ‘‘ سے غافل کردے ،یامنکرات ومنہیات ِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں ، ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے ، اور شریعت ِاسلامیہ اپنے ماننے والوں کو اس طرح کا کھیل کھیلنے سے منع کرتی ہے ۔ (أحکام القرآن للتھانوي :۳/۲۰۱)
اس ضابطۂ اسلامی کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کرکٹ کھیلنا شرعاً ناجائز ہے ، کیوں کہ یہ بہت سی دینی ودنیوی خرابیوں کا مجموعہ ہے، مثلاً:
۱؍ اس میں مشغول ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت فوت ہوتی ہے، جب کہ نماز باجماعت واجب ہے ۔ (رد المحتار:۲/۲۸۷)
یانمازیں قضا کرنی پڑتی ہیں ،جب کہ نمازوں کو جان بوجھ کر قضا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔
(رد المحتار:۲/۵۱۸)
۲؍ ملازمین کے فرائض وواجبات میں کوتاہی وخلل واقع ہوتا ہے، جب کہ اصحابِ حقوق کے حقوق میں کوتاہی کرنا حرام ہے۔ (سورۃ التطفیف:۱)
(معارف القرآن :۸ /۶۹۳، تفسیر مظہری :۱۰/۱۸۹)
۳؍ مدارس ومساجد جو پڑھنے لکھنے اور عباد ت کی جگہیں ہیں، وہاں اسی عنوان پرگفت وشنید او ر تذکرہ و تبصرہ ہوتاہے، جب کہ مساجد کا ادب وا حترام واجب ہے۔
(مشکوۃ المصابیح :ص/۷۱ ، رد المحتار :۲/۴۳۶ ، البحر الرائق :۲/۴۷۷)
۴؍ کھیل کے دنوں میں سرکاری ونیم سرکاری ،شخص ونجی ادارے معطل ہوکر رہ جاتے ہیں ،جس سے قومی وملکی اور شخصی وذاتی زبردست مالی نقصان، اور تضییعِ اوقات