حرام غذا سے پروردہ فارمی مرغیاں اور مچھلیاں
قدیم زمانے میں مرغیوں اور مچھلیوں کی افزائش وپرورش کا وہ طریقۂ کار نہیں تھا، جو آج کل وجود میں آیا ہے، اس طریقۂ کار سے جہاں انسانی غذا کی فراوانی ہوئی، وہیں کچھ نئے مسائل بھی وجود میں آئے، اُنہیں میں سے ایک مسئلہ وہ ہے جو اِن کو دی جانے والی غذا سے پیدا ہوا، کہ ان مرغیوں اور مچھلیوں کو جہاں بہت سی مختلف غذائیں دی جاتی ہیں، انہیں میں سے ایک غذا بعض لوگوں کے قول کے مطابق مردار جانور کے گوشت کا پاؤڈر بھی ہے، جس میں خنزیر کا گوشت بھی داخل ہے، تو کیا ایسی مرغیاں اور مچھلیاں کھائی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
فقہ اسلامی میں اِس کی نظیر’’ جلّالہ‘‘ ہے، لغۃً ’’ جلّالہ ‘‘ اُس جانور کو کہتے ہیں جو نجاست کھاتا ہو، اور حضراتِ شوافع کی تصریحات کے مطابق ’’ جلّالہ‘‘ ہر وہ جانور ہے، جسے نجس چارا دیا جاتا ہو، جیسے بکری کا وہ بچہ جسے کتیا یا گدھی کا دودھ پلایا گیا ہو۔(۱)
اگر واقعۃً اِن مرغیوں اور مچھلیوں کو حرام غذا دی جاتی ہو، تواِن کے کھانے کے سلسلے میں حضراتِ علمائے کرام کا اختلاف ہے:
۱- جمہورِ فقہاء جن میں احناف بھی داخل ہیں، یہ فرماتے ہیں کہ اگر حرام غذا کی وجہ سے جانور کے گوشت کی فطری بُو بدل چکی ہو، اُس کا پسینہ بدبودار بن گیا ہو، تو اس کا گوشت ، دودھ اور انڈے وغیرہ کا استعمال مکروہ ہے۔