انسانی اعضاء کی پیوندکاری
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِيْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً} ۔ ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزّت بخشی ہے، اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں، اور اُن کو پاکیزہ چیزوں کا رِزق دیا ہے، اور اُن کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔‘‘
زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ رُو بہ ترقی ہے، نئی ایجادوں نے انسانوں کو متحیر کر رکھا ہے، کل تک جس چیز کا تصور بھی مشکل تھا، وہ حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے، جدید تحقیقات وانکشافات سے آنکھیں بند کرنا بھی ممکن نہیں، اور ان سے کام لینا بھی ناشکری ہوگی، البتہ یہ دیکھنا اور سمجھنا ہم مسلمانوں کے فرائض میں داخل ہے کہ جن چیزوں سے، جس جس طرح کام لیا جاسکتا ہے، وہ کتاب وسنت کے خلاف تو نہیں ہے، یا عہد صحابہ اور بعد کے ائمہ نے جو اصول وقواعد متعین کیے ہیں اس سے ٹکراتا تو نہیں ہے۔نئی ایجادات سے اگر کتاب وسنت اور اقوالِ صحابہ کے دائرے میں رہ کر فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، تو ہمیں اس سے ضرور فائدہ اُٹھانے کی جد وجہد کرنا چاہیے۔
نئی ایجادات وترقیات میں سے ایک صورت - اعضاء کی پیوندکاری کی ہے، ناجائز چیز لگائی جائے، تو اس کی اجازت شریعت نہیں دے گی، لیکن اگر جائز اشیاء سے اعضاء کی پیوندکاری کا کام لیا جائے، تو پھر اسے ناجائز لکھنے اور کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ایک صحابی - رضی اللہ عنہ- کی ناک کٹ گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنواکر لگائی، مگر