برابری کرنا انسان کے بس میں نہیں، لیکن آگے اس غیر اختیاری معاملہ کی اصلاح کے لیے بھی ارشاد فرمایا: {فلا تمیلوا کل المیل}یعنی اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ محبت ہو، تو اس میں تم معذور ہو، لیکن دوسری بیوی سے کلی بے اعتنائی اور بے توجہی اس حالت میں بھی جائز نہیں، یہ وہی اُمور اختیاریہ کا عدل ہے کہ اس میں بے اعتدالی گناہِ عظیم ہے، اور جس شخص کو اس گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرے۔
ایک شبہ اور اُس کا جواب:
بعض لوگ سورۂ نساء کی آیتِ مذکورہ اور اس آیت کو ملانے سے ایک عجیب مغالطے میں مبتلا ہوگئے، وہ یہ کہ آیتِ سورۂ نساء میں تو یہ حکم دیا گیا کہ اگر عدل ومساوات قائم نہ رکھنے کا خطرہ ہو، تو پھر ایک ہی نکاح پر بس کرو، اور اس دوسری آیت میں قطعی طور پر یہ واضح کردیا کہ عدل ومساوات ہو ہی نہیں سکتا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سے زائد نکاح مطلقاً جائز نہ رہے، لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا مقصود ان تمام آیات میں ایک سے زائد نکاح کو روکنا ہی ہوتا، تو بھی اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ {فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی وثلٰث وربع}،یعنی نکاح کرو جو پسند آئیں تم کو عورتیں ، دو دو، تین تین، چار چار۔اور پھر اس ارشاد کے کیا معنی کہ {فان خفتم ان لا تعدلوا}،یعنی اگر تمہیں بے انصافی کا خطرہ ہو۔کیوں کہ اس صورت میں تو بے انصافی یقینی ہے، پھر خطرہ ہونے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔اس کے علاوہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عملی اور قولی بیان اور مسلسل تعامل بھی اس پر شاہد ہے کہ ایک سے زائد نکاح کو