رحمانیہ مونگیر لے گئے، جہاں ہم نے اِن بزرگوں کی علمی ، فقہی نشستوں میں شرکت کی، اور جی بھر کر استفادہ بھی کیا، وہیں ہمیں یہ علم بھی ہوا کہ حضرت ناظم صاحب (امیر شریعت رحمہ اللہ) کو فقہ اور اصولِ فقہ پر کس قدر کامل دسترس حاصل ہے، اور آپ کا علمی استحضار کیسا قابلِ رشک ہے۔
بھاگل پور کافساد:
فرقہ وارانہ فسادات، قدرتی آفات، زلزلوں ، سیلابوں سے متأثر افراد، یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور معذوروں کے لیے آپ دلِ درد مند رکھتے تھے، اور اُن کی ہر ممکن مدد کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا کرتے تھے، بھاگلپور فساد کے موقع پر بچشم خود میں نے دیکھا (اُس وقت حضرت امیرشریعت امارتِ شرعیہ کے ناظم تھے)، کہ کس حوصلہ مندی ، تن دہی، حاضر دماغی، حکمتِ عملی،اور اپنی تمام انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فساد متأثرین کی نہ صرف مدد فرمائی، بلکہ اُن کی باز آباد کاری کے مشکل وسنگین مرحلے کو کن خو ش اسلوبیوں کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔
کام کی دُھن:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو امارتِ شرعیہ کے کاموں سے انتہائی لگن ودُھن تھی، اکثر وبیشتر دوپہر کا کھانااور قیلولہ بھی اِن کاموں کی نذر ہوجایا کرتا، احقر کے امارتِ شرعیہ میں قیام کے دوران ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت امیر شریعت رابع الشاہ سید منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھاگلپور فساد سے متأثر افراد کی امدادی کاموں کی بنفسِ نفیس نگرانی کی غرض سے تقریباً ایک مہینہ امارتِ شرعیہ میں قیام فرمایا، جب آپ نے حضرت ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بارہا دیکھا کہ دوپہر کے کھانے اور قیلولے کا وقت ہے، مگر آپ ہیں کہ