لہ أہل ببلدتین فأیتھما دخلہا صار مقیمًا ‘‘۔ (رد المحتار:۲/۶۱۴)
’’ ولو انتقل بأہلہ ومتاعہ إلی بلد وبقي لہ دور وعقار في الأول قیل بقي الأول وطنًا لہ ، وإلیہ أشار محمد رحمہ اللّٰہ تعالی ۔ کذا في الزاہدي ‘‘ ۔
(الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۴۲)
شہری حدود سے خروج اور مسافرت کا آغازمسافتِ سفر کا شمار کہاں سے ہوگا؟
سوال: آبادی میں اضافہ اور دیہی آبادیوں کی شہر کی طرف منتقلی کی وجہ سے شہر پھیلتے جارہے ہیں، اور بعض شہر تو ایسے ہیں کہ اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کا فاصلہ سو کلو میٹر سے بھی تجاوز کرگیا ہے، شریعت میں سفر کی بنیاد پر بعض سہولتیں دی گئی ہیں، ان میں سے بعض سہولتیں مطلق سفر سے متعلق ہیں، اور بعض کا تعلق ایک خاص مسافت کے سفر سے ہے، ان ہی سہولتوں میں نماز میں قصر اور روزہ نہ رکھنے کا حکم بھی شامل ہے، یہ مسافت علمائے ہند کے مشہور نقطۂ نظر کے مطابق ۴۸؍ میل کی ہے، اس بات پر بھی تقریباً اتفاق ہے کہ ان سہولتوں کا فائدہ عملاً شہر کی آبادی اور شہر کے متعلقات سے باہر نکلنے کے بعد ہی اُٹھایا جاسکتا ہے، اس پس منظر میں یہ بات اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ: [الف]:- اگر ایک شخص اپنے گھر سے ۴۸؍ میل کا راستہ طے کرلے، لیکن ابھی وہ ہو شہر میںہی، شہر کی حدود سے باہر نکلنے کی نوبت نہیں آئی ہو، اور اس سے آگے جانے کا ارادہ بھی نہ ہو، تو کیا اس پر مسافر کے احکام جاری ہوں گے اور وہ نماز میں قصر کرے گا؟ [ب]:- اگر وہ ایسے مقام کا سفر کررہا ہو، جو شہر کی انتہائی حدود سے تو ۴۸؍ میل کے فاصلے پر نہ ہو، لیکن اس کے گھر کے پاس ۴۸؍ میل یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو، تو وہ قصر کرے گا یا اِتمام؟یہ سوالات اس لیے خاص طور پر