اپنی سودی رقم اپنے اصول وفروع اور عزیز واقارب کو نہ دیں!
سود کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے، نیز اس میں مشغول ہونے والوں کو کتاب وسنت میں بڑی سخت وعیدیں سناکر اس سے روک دیا گیا ہے، حضرت جابر ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے پر، سود دینے والے پر، اس کا حساب کتاب کرنے والے پراور اس کے شاہد پر لعنت فرمائی ہے، وہ سب لوگ گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘ (مسلم شریف:۲/۹)
نیز شریعتِ اسلامی نے جہاں نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ، وہیں برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے: ’’ایک دوسرے کی مدد نیکی اور تقویٰ میں کرتے رہو، اورگناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘ (سورۂ مائدہ:آیت نمبر:۲)
یہی وجہ ہے کہ حضرات فقہائے کرام بینکوں میں روپیہ پیسہ رکھنے سے منع کرتے ہیں، کیوں کہ اس کی وجہ سے سودی کاروبار میں مدد کے علاوہ سودی لعنت میں ملوث ہونے کا خطرہ ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ:ص/۴۳۱)
لیکن اگر کسی شخص نے جہالت ونادانی یا قانونی مجبوری یا دیگر کسی اور مجبوری کی وجہ سے بینک میں روپیہ رکھا، تو اس پر اس کو سود ملتا ہے، اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سودی رقم بینک سے وصول کی جائے یا نہیں؟ کیوں کہ اگر یہ رقم وہاں سے نہیں لی گئی تو یہ رقم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگی ، اور اس میں ایک طرح کا