آراء پیش کیں، بلکہ اُنہیں عملی جامہ پہنانے میں ہر طرح کا تعاون بھی کیا۔
جلوسِ جنازہ:
۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء بوقت شام تقریباً ۶؍ بجے قوم وملت کے اِس سچے ومخلص خادم نے آخری سانس لی، اور اپنے ربِ حقیقی سے جاملے، غسل وتکفین کے بعد آپ کے جسد خاکی کواحاطۂ امارتِ شرعیہ ہی میں ، آپ کے عقیدت مندوں، مریدوںاور عوام الناس کے آخری دیدار وزیارت کے لیے رکھا گیا، اور اگلے دن نمازِ ظہر کے بعد تقریباً سوا دو بجے سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر، مفکر اسلام ، نائب امیر شریعت، حضرت مولانا سید ولی صاحب رحمانی دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی،اور حاجی حرمین قبرستان پھلواری شریف میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آپ کی نمازِ جنازہ میں عوام کا سیلاب اُمڈ پڑا، جس میں بڑی تعداد میں علمائے کرام، خاص طورسے ناظم امارتِ شرعیہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ، جملہ کارکنانِ امارتِ شرعیہ، ذیلی اداروں کے ذمہ داران، پورے بہار سے مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داران،ان کے علاوہ ممبئی، لکھنؤ، کولکاتہ، دہلی، جھارکھنڈ وغیرہ کے مختلف اداروں کے سربراہ، ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث مولانا خالد غازی پوری، مولانا محمود حسن ندوی، مولانا ملک ابراہیم، مولانا شاہد ناصری ، اور اڑیسہ وجھارکھنڈ سے امارتِ شرعیہ کے متعلقین علمائے کرام کے علاوہ ملی ، سماجی وسیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔بھیڑ اس قدر تھی کہ امارتِ شرعیہ کا چپہ چپہ بھرا ہوا تھا، نہ صرف کھلی جگہوں پر بلکہ اندرونی حصہ اور چھتوں کے علاوہ سامنے والی سڑک پر، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے ٹم ٹم پڑاؤ تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تھا۔جنازے کو کندھا