جب علوم وفنون کام نہیں آتے اور نجات دینے والا معمولی ہنر انسان کے کام آتا ہے:
دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری فنون وہنر کی تعلیم کی ضرورت تجربات وواقعات سے بھی ثابت ہوتی ہے،جیسا کہ علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’انسانی علوم کے میدان میں اسلام کا انقلابی وتعمیری کردار‘‘میں ایک سبق آموز قصہ نقل کیا ہے:
’’ راوی صادق البیان کہتا ہے کہ ایک بار چند طلبہ تفریح کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے، طبیعت موج پر تھی ، وقت سہانا تھا، ہوا نشاط انگیز وکیف آور تھی، اور کام کچھ نہ تھا، یہ نو عمر طلبہ خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے، غیر تعلیم یافتہ ملّاح ان کی دل چسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرے بازی ،مذاق وتفریحِ طبع کے لیے نہایت موزوں تھا، چنانچہ ایک تیز وطرّار صاحب زادے نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: ’’چچا میاں آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں؟‘‘ملّاح نے جواب دیا: میاں میں کچھ پڑھا لکھا نہیں، صاحب زادے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا: ’’ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی؟‘‘ ملّاح نے کہا : میں نے تو اس کانام بھی نہیں سنا۔ دوسرے صاحب زادے بولے : ’’اقلیدس‘‘ اور’’ الجبرا ‘‘تو آپ ضرور جانتے ہوں گے؟‘‘ ملّاح نے کہا : حضور یہ نام میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اب تیسرے صاحب زادے نے شوشہ چھوڑا : ’’مگر آپ نے جغرافیہ وتاریخ تو پڑھی ہی ہوگی؟‘‘ ملّاح نے جواب دیا: سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے؟ ملّا ح کے اس جواب پر لڑکے اپنی ہنسی نہ ضبط کرسکے ، اور انہوں نے قہقہہ لگایا، پھر انہوں نے پوچھا: چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی؟ ملاّح نے بتایا:یہی کوئی تیس سال! لڑکوں نے کہا آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی، اور کچھ پڑھا لکھانہیں، ملاّ ح بے چارہ