مکہ ومنیٰ میں قصر واِتمام
سوال: کیا قصر واتمام میں مکہ ومنی ایک ہی شہر شمار ہوگا؟
جواب:جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، اور اس کے بعد کے اَدوار میں منیٰ کی آبادی مکہ مکرمہ کی آبادی سے بالکل الگ اور خاصے فاصلے پر تھی۔ مکہ معظمہ اور منیٰ کو دو الگ الگ آبادیاں شمار کیا جاتا تھا، اس لیے اگر کوئی شخص مکہ اور منیٰ دونوں میں ملا کر پندرہ ایام کے قیام کی نیت کرتا تھا، تو بھی اس پر مسافر کے احکام جاری ہوتے تھے، اور وہ مقیم کی امامت میں نماز ادا نہ کرنے کی صورت میں قصر کرتا تھا۔ مگر اب صورتِ حال بدل چکی، مکہ مکرمہ کی آبادی بڑھتے بڑھتے منیٰ تک ہی نہیں ،بلکہ اس سے آگے پہنچ چکی، اور منیٰ سرکاری طور پر بھی بلدیہ مکہ مکرمہ کا حصہ بن چکا ہے، جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے ایک خط کے جواب میں، امام وخطیب مسجد حرام ،شیخ محمد ابن عبداللہ السبیل فرماتے ہیں:
’’ إن منیٰ أصبحت الیوم جزئً من مدینۃ مکۃ بعد أن اکتنفھا بنیان مکۃ وتجاوزھا إلی حدود عرفۃ ، وبناء علی ھذا فإنھا قد أصبحت الیوم من أحیاء مدینۃ مکۃ ، فلا یعد الذاھب إلیھا من مکۃ مسافرًا ، وبناء علیہ فإنہ لا یجوز للحاج أن یقصر ولا أن یجمع بھا علی قول من یقول من العلماء ان العلۃ في القصر بمنی إنما ھو من أجل السفر ؛ لأن الذاھب إلی منی لم یخرج عن حدود مکۃ - إن حکومۃ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ تعد منی من مکۃ علی اعتبار أنھا من أحیاء ھا إلا أن الحکومۃ تمنع البناء فیھا لمصلحۃ عامۃ ‘‘ ۔’’دورِحاضر میں شہر منیٰ مکہ مکرمہ کا ایک حصہ بن چکا ہے، اور مکہ