وفہم پر حیرت ہے جو اعضا کے عطیہ اور ہبہ کو، بال کاٹنے ، ختنہ کرنے یا زخم یا آپریشن کے چیر پھاڑ پر قیاس کرتے ہیں، اس باب میں علمائے حنفیہ کے فہم وفراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے ہر ہر قدم پر نصوص اور انسانی احترام کو ملحوظ رکھا ہے۔
انسانی اعضاء کی وصیت
محترم قارئین ! آج کل طبیہ کالجوں وغیرہ میں اس موضوع پر بحث ومُباحَثہ اور تکرار ومُذاکَرہ ہورہا ہے کہ’’کیا انسان یہ وصیت کرسکتا ہے کہ اُس کے مرنے کے بعد اُس کے اعضا، ضرورت مندوں کے جسم میں پیوندکاری کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں؟‘‘… در حقیقت! اس سوال کا جواب معلوم کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہے کہ- انسان کا کون سا قول وفعل اچھا اور قابلِ اتباع وعمل ہے؟ اور کون سا قول وفعل ناقابلِ اتباع وناقابلِ عمل ہے، چنانچہ اِس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ انسان کا وہ قول وفعل قابلِ اتباع وقابلِ عمل ہوتاہے جو اچھا ہے، اور اس کا جو قول وفعل برا ہے، وہ ناقابلِ اتباع وناقابلِ عمل ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہوگا کہ انسان کا کون سا قول وفعل اچھا ہے، اور کون سا قول وفعل برا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ- اچھائی اور برائی کو معلوم کرنے کے لیے پہلے ہمیں کوئی ایک معیار وپیمانہ قائم کرنا ہوگا، جس میں ہم کسی بھی قول وفعل کے اچھے یا برے ہونے کو پرکھ سکیں ، اور اس معیار وپیمانہ میں اختلاف ہے۔ وہ اس طرح کہ جو لوگ کسی دین ومذہب کو نہیں مانتے اُن کے نزدیک اچھائی اور برائی کا معیار وپیمانہ یا تو مغربی فکر وخیال ہے، یا اُن کی اپنی عقلیں، یہ لوگ ہر اُس قول وفعل کو اچھا کہتے ہیں جسے مغربی