وطنِ اصلی متعدد ہوسکتے ہیں!
سوال:کیا وطنِ اصلی متعدد ہوسکتے ہیں؟
جواب: کوئی بھی مقام انسان کاوطن اصلی دوچیزوںکی بنیاد پر ہوتاہے: (۱)اہل وعیال۔ (۲) گھربار وجائداد’’Real Property‘‘
اگر کسی انسان کے لیے یہ دونوںچیزیں ایک سے زائد مقام پر ہوں، تو وہ مقامات اس کے لیے وطنِ اصلی ہوں گے، اور اس طرح تعددِ وطنِ اصلی ممکن ہے، جیسا کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وطنِ اصلی کا ایک یا اس سے زائد ہونا جائز ہے، بایں طور کہ کسی کے اہل وعیال اور گھر بار دو، یا اس سے زائد شہروں میں ہوں، اور اس کے اہل وعیال کا وہاں سے نکلنے کا ارادہ نہ ہو،اور شخصِ مذکور سال بھر ادھر سے ادھر منتقل ہوتا رہتا ہو، اگر وہ بہ نیتِ سفر ایک شہر سے (جس میںاس کے اہل وعیال موجود ہیں)دوسرے شہر کی طرف (جہاں اس کے اہل وعیال موجود ہیں) نکلے، تو محض شہر میں داخل ہونے سے مقیم ہوگا بلا نیتِ اقامت۔ ’’ ثم الوطن الأصلي یجوز أن یکون واحدًا أو أکثر من ذلک بأن کان لہ أہل ودار في بلدتین أو أکثر ، ولم یکن من نیۃ أہلہ الخروج منہا ، وإن کان ہو ینتقل من أہل إلی أہل في السنۃ حتی انہ لو خرج مسافرًا من بلدۃ فیہا أہلہ ، ودخل في أي بلدۃ من البلاد التي فیہا أہلہ فیصیر مقیمًا من غیر نیۃ الإقامۃ ‘‘۔(بدائع الصنائع :۱/۲۸۰، البحر الرائق :۲/۲۳۹، مجمع الأنھر:۱/۱۶۴) (فتاویٰ حقانیہ: ۳/۳۵۰،۳۵۱)
(أو تأہلہ) أي تزوجہ ۔ قال في شرح المنیۃ : ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الإقامۃ بہ ، فقیل لا یصیرمقیمًا ، وقیل یصیر مقیمًا وہو الأوجہ ، ولوکان