(۳) ۱؍ مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا۔
۲؍ ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں عورت کے ساتھ صحبت کرچکاہو۔
۳؍ طلاقِ بائن دینا ۔
۴؍ ایک طہر میں ایک سے زائد (دو یاتین ) طلاق دینا۔
۵؍ غیر مدخولہ کو بیک وقت ایک سے زائد طلاق دینا۔
۶؍ نابالغہ یا آئسہ (جس عورت کو حیض آنا بند ہوچکاہو)کو ایک مہینے میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طلاقِ بدعت ہے، اس طرح طلاق دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے ، البتہ طلاق بہر صورت واقع ہوجاتی ہے۔
ایک غلط فہمی
عامۃً لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ نکاح کے بندھن کو ختم کرنے کے لیے تین طلاق دینا ہی ضروری ہے ، اور جب تک تین طلاقیں نہیں دی جائیں گی نکاح ختم نہیں ہوگا، اس کی وجہ احکامِ شرعیہ سے ناواقفیت ہے ۔ایک طلاق دے کر بھی نکاح ختم کیا جاسکتاہے (جس کا طریقہ اوپر گزرچکا)، نیز طلاق ضرورۃً مباح ہے ، اور جو چیز ضرورۃً مباح ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ہی مباح ہوتی ہے، اور رضرورت ایک طلاق سے پوری ہوجاتی ہے ، فقہ کا قاعدہ ہے: ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ ۔ ’’ وما أبیح للضرورۃ یتقدر بقدرہا ‘‘۔(الأشباہ والنظائر:۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)، اس لیے زائد طلاقیں دینے سے پرہیز کیا جائے ، تاکہ گنا ہ لازم نہ آئے۔فقط
واللہ أعلم بالصواب