فکر وخیال یا اُن کی عقلیں اچھا کہے، اورہر اس قول وفعل کو برا کہتے ہیں، جو مغربی فکر وخیال یا اُن کی عقلوں سے مُتَصادِم (ٹکراتا) ہو۔
اور جو لوگ کسی دین ومذہب کومانتے ہیں اُن کے نزدیک کسی قول وفعل کے اچھا یا برا ہونے کے لیے معیار وپیمانہ اُن کا اپنا دین ومذہب ہے، کہ اُن کے دین ومذہب نے جس قول وفعل کو اچھا کہا ، وہ اُن کے نزدیک اچھا ہے، اور جس کو برا کہا ، وہ برا ہے، اس معیار وپیمانہ کے اعتبار سے جو قول وفعل اچھا ہوگا، وہ قابلِ اتباع اور قابلِ عمل بھی ہے، اور جو برا ہے وہ ناقابلِ اتباع اور ناقابلِ عمل ہے۔
ہم چوں کہ مسلمان ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک اچھائی اور برائی کا دوسرا معیار وپیمانہ ہی صحیح ودرست ہے، کیوں کہ یہ معیار اور پیمانہ اُس ذات نے عطا کیا ہے، جس نے پوری انسانیت کو عقل وفہم عطا کی، اور ظاہر بات ہے کہ اچھائی اور برائی کا وہ پیمانہ جو انسانی عقلوں پر مبنی ہے، وہ خالق کے قائم کردہ پیمانے کے مُعارِض ومُتصادِم ہوہی نہیں سکتا، کیوں کہ ہماری عقلیں آج کسی چیز کو حسین اور اچھا کہتی ہیں، اور آئندہ کل اُس کی نفی کرتی ہے، یا اِس کے برعکس ؛ آج کسی چیز کے حسین اور اچھا ہونے کی نفی کرتی ہے، اور آئندہ کل اُس کا اِثبات۔ تو ہماری عقلیں ، بالخصوص جب کہ وہ مفادات ، شہوات، اَغراض، سے مغلوب ہوں - کیونکر کسی چیز کے اچھا یا برا ہونے کا معیار ہوسکتی ہیں؟!
دینِ اسلام جو نہ صرف مسلم قوم کے لیے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے دینِ رحمت ہے، اور اس کے یہاں پوری مخلوقات میں حضرتِ انسان سب سے اعلیٰ، اشرف اور محترم ہے، اس لیے اُس نے اُسے ہر ایسے قول وفعل سے منع کیا جس سے اُس کا اعلیٰ، اشرف اور محترم ہونا متأثر ہوتاہے ، یا اُس میں خلل واقع ہوتا ہے۔