کی تجارت شروع کردیں گے، اور حکومتِ وقت کا کوئی قانون اس کو بچا نہیں سکے گا، خواہ وہ قانون کتنا ہی سخت اور مضوبط کیوں نہ ہو، غریب اور کمزور انسان کا جینا مشکل ہوجائے گا، اور سرمایہ دار اور قوی گھرانے غریبوں اور کمزوروں پر عرصۂ حیات تنگ کردیں گے،اور یہ کیسی دانش مندی ہوگی کہ ایک انسان کی صحت یابی کے لیے دوسرے کی صحت سے کھیلا جائے، اور مستقبل میں اس کو بیماری کا لقمۂ تر بنایا جائے۔
نیز حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک دنیا پر ہزاروں سال گزر چکے، انسان اپنی ضرورتیں پوری کرتا رہا، اس ظلم اور جور وتعدِّی کا تصور تک انسانی ذہن میں نہیں آیا، یہ ظلم خواہ اپنے اوپر ہو یا غیر کے اوپر، ایک شخص تو تکلیف میں ہے ہی، دوسرے کو بھی تکلیف میں مبتلا کرنے کا راستہ کھولا جارہا ہے۔
بعض لوگ اس کو اِیثار کا نام دیتے ہیں، یہ بھی نفس کا کھلا فریب ہے، راحت سے محروم کے لیے زندہ اور مردہ انسان کے اعضا کا بخشنا تو ایثار ہے، مگر کیا محروم الراحۃ شخص پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ زندہ اور مردہ انسان پر رحم کھائے، اور اس کے احترامِ آدمیت کی لاج رکھے۔؟!
جس حکومت کا قانون خون ریزی، آتش زنی اور لوٹ مار کو بند نہیں کرسکتا، اس کے قانون سے اس کی توقُّع رکھنا کہ اجازت کا بے جا استعمال نہ ہوگا، عقل میں آنے کی بات نہیں، وہ منظر کس قدر بھیانک ہوگا کہ ادھر مرنے والے کی روح نے پرواز کیا، اور وہیں ہاتھوں ہاتھ پہلے سے تیار ڈاکٹر اس مردہ کی آنکھیں نکالیں گے، سینہ چاک کرکے گُردے باہر کردیں گے، اور بہت سے کمزور وغریب کے جسم کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کیے بغیر اپنے آلات کا استعمال شروع کردیں گے۔ان لوگوں کی عقل