کے نفاذ کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنایا ہو، تو عدالت کن بنیادوں پر دوسرے فریق کو یہ مشورہ دے رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو مذہبی عقیدہ اور اَنا کا مسئلہ نہ بنائے۔جب کہ ہمارا یہ ملک اور اُس کا دستور سیکولر اور جمہوری ہے، اور اسی میں اس کی خوبصورتی بھی ہے کہ یہاں ہر مذہب کو پھلنے پھولنے کا موقع حاصل ہے، اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے بزور و زبردستی اپنے مذہبی اَفکار ونظریات کو دیگر اہلِ مذاہب پر عائد نہیں کر سکتے، حالانکہ مذکورہ قانون کے نفاذ سے اس ملک کی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
امید ہے کہ حکومتِ وقت اس قانون کے تمام پہلوؤں کابغور جائزہ لے گی ،اور اپنے عوام کے جذبات ، خواہشات اور روزگار کا بھر پور خیال رکھ کر اس کا مناسب حل تلاش کرلے گی۔