۲- جب کہ شوافع اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق ان کا استعمال حرام ہے۔
۳- تیسرا قول حنابلہ کا ہے، وہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر اکثرِ غذا نجس وحرام ہے، تو گوشت اور دودھ کا استعمال مکروہ ہے، خواہ اس کے گوشت اور پسینے میں کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو۔
۴- چوتھا قول مالکیہ کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اس طرح کے جانوروں کے گوشت میں کوئی کراہت نہیں ، خواہ گوشت اور پسینے کی بُو بدل چکی ہو، کیوں کہ نجس غذائیں جب گوشت ، دودھ اور انڈے کی شکل میں تبدیل ہوگئیں تو وہ نجس باقی نہ رہیں۔(۲)
البتہ تمام فقہاء خواہ وہ قائلینِ حرمت ہوں یا کراہت، اتنی بات پر تو متفق ہیں کہ اگر اِن جانوروں کو ایک مدت تک پاک غذا دی جائے، تو اِن کی حرمت وکراہت ختم ہوجائے گی، مگر مدتِ حبس میں اختلاف ہے۔
شوافع کے نزدیک اونٹ کوچالیس دن، گائے کو تیس دن، بکری کو ایک ہفتہ اور مرغی کو تین دن محبوس رکھ کر حلال غذا دیئے جانے پر ، یہ حلال ہوں گے۔
احناف مرغی کو تین دن، بکری کو چار دن ، اونٹ اور گائے کو دس دن محبوس رکھنے پر اِن کی حلت کے قائل ہیں۔
امام احمد ابن محمد ابن حنبل سے اس سلسلے میں دو روایتیں ملتی ہیں:
(۱) جلّالہ ، خواہ پرندہ ہو یا جانور، اسے تین دن محبوس رکھا جائے۔
(۲) گائے اور اونٹ کو چالیس دن محبوس رکھا جائے، تو وہ حلال ہوں گے۔(۳)
صاحبِ مغنی نے اس بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے بڑی اچھی بات نقل فرمائی،کہ وہ اس طرح کے جانوروں کے گوشت، دودھ کے استعمال کی اجازت