چنانچہ انہوں نے جلادیا۔
(۶) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شراب کی دکانوں کو مع ساز وسامان جلادیا۔
(۷) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض گورنروں پر مالی جرمانہ عائد کیا، جنہوں نے اپنے جاہ ومنصب کو ذاتی دولت اِکٹھا کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔
(۸) حضرت حاطب ابن بلتعہ کے ایک غلام نے قبیلۂ مزینہ کے ایک آدمی کی اونٹنی چرالی، ت حاطب ابن بلتعہ پر اونٹنی کی دوگنی قیمت ادا کرنے کا جرمانہ کیا گیا۔
(۹) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے غلہ کے ڈھیر کو جلادیا، جس نے قیمت بڑھانے کے لیے غلہ روک رکھا تھا۔ نیز جو لوگ شراب بیچتے تھے ان کے مکانات کو جلوادیا۔اس طرح اور بھی دوسرے شواہد ہیں جن کی روشنی میں بعض محققین فرماتے ہیں کہ تعزیر مالی جائز ہے۔
علامہ ابو یوسف قرضاوی حفظہ اللہ نے ’’فقہ الزکوۃ :۲/۷۱۵، ۷۱۶‘‘ میں لکھا ہے:
’’ وقد ذہب بعض الأئمۃ إلی أن العقوبۃ بأخذ المال أمر غیر جائز ولا سائغ ، وأن ذلک شيء حدث أول الأمر ثم نسخ ، وذلک تشدد منہم في الحفاظ علی حرمۃ تملک واستناد إلی الحدیث القائل ’’ إن اللّٰہ حرم علیکم دماء کم وأموالکم ‘‘ ولأن الصحابۃ قاتلوا الممتنعین عن الزکاۃ ولم یأخذوا منہم زیادۃ علیہا ، ولکن الحدیث المذکور ہنا یرد علیہم ، ولہذا رد بعضہم بالطعن في سندہ ، ولیس فیہ مطعن معتبر ۔ ولجأ بعضہم إلی القول بنسخہ ولا دلیل علی ذلک ، وقد ثبتت العقوبات المالیۃ بأکثر من دلیل ‘‘ ۔ (فقہ الزکاۃ ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ)
بعض ائمہ کہتے ہیں کہ تعزیر مالی جائز نہیں ہے، یہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا پھر