منسوخ ہوگیا، ان حضرات کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون اور مال کو حرام قرار دیا ہے، ان حضرات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ صحابہ نے مانعینِ زکوۃ سے قتال تو کیا، لیکن ان سے زکوۃ کی مقدار سے زیادہ کوئی رقم وصول نہیں کی، لیکن حدیث (جو علامہ قرضاوی نے اس عبارت سے قبل پیش کی ہے) ان حضرات کے خلاف ہے، اسی لیے بعض حضرات اس کی سند پر جرح کرکے اس روایت کو قابلِ احتجاج نہیں گردانتے، حالانکہ اس کی سند میں کوئی معتبر جرح نہیں ہے، بعض لوگ منسوخ ہونے کے قائل ہیں، لیکن اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، اس کے برعکس مالی جرمانہ متعدد دلائل سے ثابت ہے۔
اسی کتاب کے ’’۲/۷۸۱‘‘ میں ہے: ’’ الصحیح أن العقوبۃ بالمال لم تنسخ ، وقد ذکر المحقق ابن القیم في الطرق الحکمیۃ خمس عشرۃ قضیۃ لرسول اللّٰہ ﷺ والخلفاء الراشدین تحققت فیہا العقوبۃ بالمال ‘‘ ۔
صحیح یہ ہے کہ مالی جرمانہ منسوخ نہیں ہے، محقق ابن قیم نے عہد نبوت اور دورِ خلافت کے پندرہ واقعان اپنی گراں قدر تالیف ’’ الطرق الحکمیۃ‘‘ میں درج فرمائے ہیں، جن سے تحقیقی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مالی جرمانہ جائز ہے۔
’’فقہ عمر بن الخطاب:۱/۳۶۱‘‘ میں دکتور رویعی بن راجح الرحیلی نے اس مسئلے کے دونوں پہلوؤں؛ جواز وعدمِ جواز پر مفصل گفتگو کی ہے، اور بحث کے اخیر میں لکھا ہے:
’’ والظاہر أن العقوبۃ بالمال جائزۃ إذا لم یأخذ الإمام لنفسہ بل یأخذ للتأدیب فیضعہ في بیت المال ، وإن رأی أن یعطیہ للمجنی علیہ جبرًا فلہ ذلک ، وإن رأی المصلحۃ فیہ ولہ أن یتلفہ کما فعلہ رسول اللّٰہ ﷺ بمسجد الضرار وکما فعل عمر باللبن المغشوش فإنہ أراقہ ، اما ان العقوبۃ