(۱۳)حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی نے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اس مکان کو جلادینے کا حکم صادر کیا، جس کو انہوں نے اس لیے بنایاتھا کہ لوگ ان کے پاس (ہر وقت) نہ آسکیں، چنانچہ محمد بن مسلمہ کو حضرت عمر نے بھیج کر سعد بن ابی وقاص کے مکان کو جلوا دیا، یہ تمام واقعات صحیح ہیں، اور اہلِ علم کے درمیان مشہور ہیں، اس کے علاوہ اور بھی متعدد نظائر ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں تعزیر مالی منسوخ ہے، اور اس بات کو امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ غلط انتساب کرتے ہیں، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر امام کے نزدیک ناجائز ہے، وہ بے ثبوت بات کہتے ہیں، حالانکہ کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تعزیر کو حرام فرمایا ہو، بلکہ خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کا مالی تعزیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تعزیر مالی کا جواز قائم ہے، منسوخ نہیں ہے۔
یہ تمام صورتیں امام احمد، امام مالک اور ان کے اصحاب سے صراحۃً مروی ہیں، امام احمد اور امام مالک وغیرہ کامسلک یہ ہے کہ تعزیر مالی تعزیر بدنی کی طرح ہے، جو شرع کے موافق بھی ہوسکتی ہے، اور شرع کے خلاف بھی، ان حضرات کے نزدیک تعزیر مالی منسوخ نہیں ہے، جو لوگ منسوخ ہونے کے مدعی ہیں ان کا دامن ثبوت سے خالی ہے۔
ڈاکٹر عدنان خالد الترکمانی استاذ فقہ جامعہ امام ابن سعود ریاض نے اپنی وقیع تالیف ’’ ضوابط الملکیۃ في الفقہ الإسلامي:ص/۱۶۹‘‘ میں لکھا ہے:
’’ ذہب جمہرۃ الفقہاء إلی القول بعدم جواز التعزیر بأخذ المال لما أنہ یؤدي إلی تسلط الظلمۃ علی أموال الناس بالباطل وفي ذلک فساد عریض ۔ بینما ذہب بعض المحققین من الفقہاء إلی جواز التعزیر بأخذ المال في بعض