دلیل ولم یجيء عن النبي ﷺ شيء قط ، یقتضي أنہ حرم جمیع العقوبات المالیۃ ، بل أخذ الخلفاء الراشدین وأکابر أصحابہ بذلک بعد موتہ دلیل علی أن ذلک محکم غیر منسوخ ، وعامۃ ہذہ الصور منصوصۃ عن أحمد ومالک وأصحابہ ، وبعضہا قول عند الشافعي باعتبار ما بلغہ من الحدیث ، ومذہب مالک وأحمد وغیرہما : ان العقوبات المالیۃ کالبدنیۃ تنقسم إلی ما یوافق الشرع وإلی ما یخالفہ ولیست العقوبۃ المالیۃ منسوخۃ عندہما ، والمدعون للنسخ لیس معہم حجۃ بالنسخ لا من کتاب ولا سنۃ ‘‘ ۔
مالی تعزیر چند مخصوص صورتوں میں مشہور قول کے مطابق امام مالک کے نزدیک جائز ہے، امام احمد کے نزدیک چند مواقع پر جائز ہے، امام شافعی کے نزدیک ایک قول کے مطابق جائز ہے، لیکن اس سلسلے میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ سنت سے مالی تعزیر کا جائز ہونا ثابت ہے، مثلاً:
(۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حرمِ مدینہ میں شکار کرے، اس کا سامان چھین لیا جائے۔
(۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے گھڑوں اور برتنوں کو پھوڑنے کا حکم دیا۔
(۳) حضرت عبد اللہ ابن عمر کو حکم دیا کہ وہ معصفر کپڑوں کو جلادیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا دھوکر ان کا رنگ زائل کردوں؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ جلادو۔
(۴) جنگِ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان برتنوں کو پھوڑ دیا جائے، جن میں گدھے کا گوشت پکایا جاتا ہے، پھر لوگوں نے اجازت لی کہ برتن نہ پھوڑیں، اور گوشت پھینک دیں، تو آپ نے اجازت دے دی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم