ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے فتاویٰ میں اس مسئلے پر بسط وتفصیل سے شافی بحث فرمائی ہے،ذیل میں ’’مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ:۲۸/۱۱۰- ۱۱۲‘‘ کی عبارت:
’’ والتعزیر بالعقوبات المالیۃ مشروع أیضًا في مواضع مخصوصۃ في مذہب مالک في المشہور عنہ ، ومذہب أحمد في مواضع بلا نزاع عنہ ، وفي مواضع فیہا نزاع عنہ ، والشافعي في قول وإن تنازعوا في تفصیل ذلک کما دلت علیہ سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ في مثل : إباحتہ سلب الذي یصطاد في حرم المدینۃ لمن وجدہ ، ومثل أمرہ بکسر دنان الخمر وشق ظروفہ ، ومثل أمرہ عبد اللّٰہ بن عمر بحرق الثوبین المعصفرین ، وقال لہ أغسلہما ؟ قال : لا بل احرقہما ۔ وأمرہ لہم یوم خیبر بکسر الأوعیۃ التي فیہا لحوم الحمر ثم لما استأذنوہ في الإراقۃ أذن ، فإنہ لما رأی القدور تفور بلحم الحمر أمر بکسرہا وإراقۃ ما فیہا ، فقالوا : أفلا نریقہا ونغسلہا ؟ فقال : انعلوا ، فدل ذلک علی جواز الأمرین ؛ لأن العقوبۃ بذلک لم تکن واجبۃ ۔ ومثل ہدمہ لمسجد الضرار ، ومثل تحریق موسی للعجل المتخذ إلٰہًا ۔ ومثل تضعیفہ ﷺ الغرم علی من سرق غیر حرز ۔ ومثل ما روي من إحراق متاع الغال ومن حرمان القاتل سلبہ لما اعتدی علی الأمیر ۔ ومثل أمر عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب بتحریق المکان الذي یباع فیہ الخمر ۔ ومثل أخذ شطر مانع الزکاۃ ۔ ومثل تحریق عثمان بن عفان المصاحف المخالفۃ للإمام ۔ وتحریق عمر بن الخطاب للکتب الأوائل ۔ وأمرہ بتحریق قصر سعد بن أبي وقاص الذي بناہ لما أراد أن یحتجب عن الناس فأرسل محمد بن مسلمۃ وأمرہ أن یحرقہ علیہ ، فذہب فحرقہ علیہ ، وہذہ القضایا کلہا صحیحۃ معروفۃ عند أہل العلم بذلک ونظائرہ متعددۃ ۔ ومن قال إن العقوبات المالیۃ منسوخۃ ، وأطلق ذلک عن أصحاب مالک وأحمد فقد غلط علی مذہبہما ۔ ومن قالہ مطلقًا من أي مذہب کان ۔ فقد قال قولا بلا