للنسخ لیس معہم سنۃ ولا إجماع ، یصحح دعواہم إلا أن یقولوا مذہب أصحابنا لا یجوز ، وقال ابن القیم : إن النبي ﷺ عذر بحرمان النصیب المستحق من السلب وأخبر عن تعزیر مانع الزکاۃ بأخذ شطر مالہ فقال ﷺ فیما یرویہ أحمد وأبو داود والنسائي : من أعطاہا مؤتجرا فلہ أجرہا ومن منعہا فإنا آخذوہا وشطر مالہ عزمۃ من عزمات ربنا ‘‘ ۔
(فقہ السنۃ للسید سابق :۳/۶۵، ط : دار الفتح للإعلام العربي)
تعزیر بالمال جائز ہے، یہ امام ابو یوسف اور امام مالک کا قول ہے،صاحب ’’معین الحکام‘‘ فرماتے ہیں: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مالی جرمانہ منسوخ ہے، وہ نقلاً بھی اور استدلالاً بھی ائمہ اربعہ کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہیں، نسخ کا دعویٰ آسان نہیں ہے، جو لوگ نسخ کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، نہ تو سنت ہے، اور نہ اجماع ، جن سے ان کا دعویٰ صحیح ثابت ہوسکے، ہاں! صرف اتناکہہ سکتے ہیں کہ ان کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ مالی جرمانہ جائز نہیں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو مالِ غنیمت کے حصے سے محروم ہونے کی سزا دی، یہ بھی لکھتے ہیں کہ زکوۃ نہ دینے والوں کو ان کے مال کا ایک حصہ ضبط کرنے کی سزا دی، امام احمد، ابو داود ، اور امام نسائی کی ایک روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ اجر وثواب کی امید پر راضی برضا زکوۃ دیں گے، ان کو اجر ملے گا، اور جو لوگ ادا نہیں کریں گے ان سے ہم زکوۃ بھی وصول کریں گے، اور اس کے علاوہ ایک حصہ لیں گے، یہ ہمارے رب کی طرف سے اُن پر جرمانہ ہے۔ (فقہ السنۃ)
’’ المعیار المعرب:۲/ ۴۱۶‘‘ میں بھی مالی تعزیر کی متعدد روایات منقول ہیں، علامہ