ہے۔ سدّ ذریعہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی شکل جس سے معاشرے میں کوئی فساد رونما ہوتا ہو، یا پیدا ہونے کا خطرہ ہو، تو اس شکل پر پابندی عائد کردی جائے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی واضح اور صریح نص کی بنا پر فقہائے احناف نے مالی جرمانہ کو ناجائز قرار نہیں دیا ہے، بلکہ مالی جرمانہ کے نصوص ہوتے ہوئے سدّ ذریعہ کے اُصول کو اپناکر، ناجائز بتایا ہے۔
موجودہ زمانے میں مالی جرمانہ کے بغیر معاشرے کی اصلاح بعض حالات میں مشکل، بلکہ ناممکن ہے، اور لوگوں کے مال کو ہڑپ کرلینے کا خطرہ غالب اور اکثری نہیں ہے، اس لیے میرے نزدیک مالی جرمانہ عائد کرنا درست ہونا چاہیے، کیوں کہ موجودہ زمانے میں سدّ ذریعہ کی وہ شکل موجود نہیں ہے، جس شکل کی بنیاد پر فقہائے احناف نے مالی جرمانہ کو ناجائز قرار دیا ہے، علاوہ ازیں محققین فرماتے ہیں کہ جن ائمہ کی طرف عدمِ جواز کے قول کو منسوب کیا جاتا ہے، ان کی طرف عدمِ جواز کے قول کا انتساب غلط ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ ائمہ بھی جواز کے قائل ہیں، چنانچہ سید سابق، علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہ کی عبارتیں ذیل میں پڑھیں، عبارتیں ملاحظہ ہوں:
’’ وأجاز بعض الحنفیۃ التعزیر بالمال علی أنہ إذا تاب یرد لہ ‘‘ ۔ بعض احناف نے مالی جرمانہ کو اس صورت میں جائز قرار دیا ہے، جب کہ مجرم کے توبہ کرنے کی صورت میں اس کا مال اُسے واپس کردیا جائے۔
(کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ :۵/۳۲۵ ، ط: احیاء التراث العربي بیروت)
’’ ویجوز التعزیر بأخذ المال وہو مذہب أبي یوسف ، وبہ قال مالک ، قال صاحب معین الحکام : ومن قال : إن العقوبۃ مالیۃ منسوخۃ فقد غلط علی المذاہب الأئمۃ - نقلا واستدلالا ، ولیس بسہل دعوی نسخہا والمدعون