گزرتا ہے ،عید ،بقر عید ،یاطویل تعطیلات میں ہی وہ اپنے وطنِ اصلی جاتے ہیں، اگر اس طرح کے لوگ جائے ملازمت میں اپنا ذاتی مکان بنالیں، اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ وہاں رہائش پذیر ہوں،اور اس جگہ مستقلًارہنے کا عزمِ مصمم کر لیں، تو یہ جگہ ان کے لیے وطنِ اصلی ہے۔
’’ والوطن الأصلي : ھو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدۃ أخریٰ اتخذھا دارًا وتوطن بھا مع أھلہ وولدہ ، ولیس من قصدہ الارتحال عنھا بل التعیش بھا ‘‘ ۔ (البحر الرائق :۲/۲۳۹ ، بدائع الصنائع :۱/۲۸۰)
(۲)جن لوگوں نے جائے ملازمت میںذاتی مکان نہ بنایا ہو، کرایہ کے مکان یاادارہ وکمپنی کی طرف سے دیئے گئے مکان میں اہل عیال کے ساتھ رہتے ہوں، اور مستقلًا رہنے کا عزم بھی ہو، نیز ان کی حالت وپوزیشن (Possession)کچھ ایسی ہو کہ اس عز م وارادہ کے منافی ومخالف نہ ہو،تو یہ جگہ ان کے لیے وطنِ اصلی ہوگی،اور انہیں وہاں نمازیں پو ری پڑھنی ہوگی۔جیساکہ علامہ شامی رحمہ اللہ ’’درمختار‘‘ کی وطنِ اصلی کی تعریف (الوطن الأصلي : ھو موطن ولادتہ أو تأھلہ أو توطنہ)کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قولہ : (أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ ، وعدم الارتحال وإن لم یتأھل ۔ (رد المحتار:۲/۶۱۴)
اور ’’ والحاصل أن شروط الإتمام ستۃ : النیۃ ، والمدۃ ، واستقلال الرأي، وترک السیر ، واتحادالموضع ، وصلاحیتہ ۔ قھستاني ۔ (در مختار)میں ’’حلیہ ‘‘کے حوالہ سے مزید ایک شرط کااضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قولہ: (ستۃ) زاد في الحلیۃ شرطًا آخر : وھو أن لا تکون حالتہ منافیۃ لعزیمتہ ۔