ہیں۔جس طرح وطنِ اصلی اور مستقل قیام گاہ انسان کی ضرورت ہے، اسی طرح سفر اورنقل و حرکت بھی اس کی ضروت ہے، اس لیے شریعت نے سفرو حضر کے احکام الگ الگ رکھے ہیں۔ فقہائے عظام نے قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ کو سامنے رکھتے ہوئے، وطن کی تین قسمیں بیان فرمائی ہے:
(۱)وطنِ اصلی ۔ (۲) وطنِ اقامت۔ (۳) وطنِ سکنیٰ۔
وطنِ اصلی: وہ جگہ ہے، جہاں انسان کی پیدائش ہو، یا وہ شہر ہے جس میں اس نے شادی کی ہو ۔
وطنِ اقامت : وہ جگہ ہے، جہاں مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت کی ہو ۔
وطنِ سکنیٰ: وہ جگہ ہے، جہاں مسافر نے پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو۔ ’’ اعلم أن الأوطان ثلاثہ : وطن أصلي ؛ وھو مولود إنسان أو البلدۃ التي تأھل فیھا ۔ ووطن الإقامۃ ؛ وھو الموضع الذي ینوي المسافر أن یقیم فیہ خمسۃ عشر یومًا فصاعدًا ۔ ووطن السُّکنی ؛ وھو المکان الذي ینوي أن یقیم فیہ أقل من خمسۃ عشر یومًا ‘‘ ۔
(تبیین الحقائق :۱/۵۱۷ ، الفتاوی الھندیۃ :۱/۱۴۲، بدائع الصنائع :۱/۲۸۰)
اس دورِ عو لمیت(Globalization)میں کسبِ معاش کے ذرائع کی وُسعت کی وجہ سے، قیام وسفر کی بعض نئی صورتوں نے جنم لیا ہے، جو نماز کے پورے پڑھنے، یا قصر کر نے پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔مثلاً :
( ۱) بعض لوگ ملازمت وغیرہ کے لیے اپنے وطنِ اصلی سے تعلق رکھتے ہوئے کسی اور جگہ اِقامت اختیار کر لیتے ہیں، اور اُن کا سال کا زیادہ تر حصہ اسی جائے قیام پر