قال : کما صرحوا بہ في مسائل : أي کمسئلۃ من دخل بلدۃً لحاجۃ ، ومسئلۃ العسکر فافھم ۔ (ردالمحتار:۲/۶۰۹)
(۳) اگر کوئی آدمی جائے ملازمت میں تنہا رہ رہا ہو، بال بچے ساتھ نہ ہوں،اور مکان بھی ذاتی نہ ہو،اور اس جگہ مستقلًا رہنے کا عزمِ مصمم ہو، اور اس کی حالت اس عزم کے منافی ومخالف نہ ہو، تو یہ جگہ اس کے لیے وطنِ اصلی ہوگی ،او روہ وہاں نمازیں پوری پڑھے گا۔جیسا کہ وطنِ اصلی کی اس تعریف سے مفہوم ہوتا ہے : (ھو موطن ولادتہ أو تأھلہ أو توطنہ) ۔ (در مختار) وفي الشامیۃ: قولہ : (أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ ، وعدم الارتحال وإن لم یتأھل ‘‘ ۔ (رد المحتار:۲/۶۱۴) (خیرالفتاویٰ:۲/۶۷۵) - قولہ : (ستۃ) زاد في الحلیۃ شرطًا آخر، وھو أن لا تکون حالتہ منافیۃ لعزیمتہ ‘‘ ۔ (رد المحتار:۲/۶۰۹) - لیکن اگر شخصِ مذکور اس جگہ مستقلاًرہنے کا عزم نہ رکھتا ہو،یا رکھتا ہو لیکن اس کی حالت اس عزم کے منافی و مخالف ہو، تو اس کے لیے یہ جگہ وطنِ اقامت ہوگی،اگر پندرہ دن یااس سے زائد رہنے کی نیت ہو، تو نمازیں پوری پڑھے گا، ورنہ قصر کرے گا۔ ’’ووطن إقامۃ وھو الموضع الذي ینوي المسافر أن یقیم فیہ خمسۃ عشر یومًا فصاعدًا‘‘۔ (تبیین الحقائق :۱/۵۱۷) - ’’ أما وطن الإقامۃ فھو الوطن الذي یقصد المسافر الإقامۃ فیہ وھو صالح لھا نصف شھر ‘‘ ۔ (البحر الرائق :۲/۲۳۹) - (ویبطل وطن الإقامۃ) یسمی أیضًا الوطن المستعار والحادث وھو ما خرج إلیہ بنیۃ إقامۃ نصف شھر ، سواء کان بینہ وبین الأصلي مسیرۃ السفر أو لا ‘‘۔
(رد المحتار:۲/۶۱۴ ، بدائع الصنائع : ۱/۲۸۰)