’’الکفایہ علی الہدایہ‘‘ کی کتاب الحدود میں ہے: ’’ وعن أبي یوسف أن التعزیر بأخذ المال یجوز للسلطان ‘‘ ۔حضرت امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ سلطان کے لیے تعزیر بالمال جائز ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی ’’فتح القدیر‘‘ کی اس عبارت سے بھی تعزیر بأخذ المال سے متعلق اسی نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے:’’ وعن أبي یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال ، وعندہما وباقي الأئمۃ الثلاثۃ لا یجوز ‘‘ ۔امام ابو یوسف کے نزدیک مالی جرمانہ جائز ہے، طرفین اور باقی ائمہ ثلاثہ کے نزدیک درست نہیں ۔ (۵/۳۳۰، ط: بیروت)
’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں اسی طرز کی صراحت موجود ہے:
’’ وعن أبي یوسف أن التعزیر بأخذ الأموال جائز للإمام ۔ (قولہ : وعن أبي یوسف أن التعزیر بأخذ الأموال جائز للإمام) وعندہما والشافعي ومالک وأحمد لا یجوز بأخذ المال ‘‘ ۔ حضرت امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ وہ امام کے لیے مالی جرمانہ کو جائز کہتے ہیں، امام ابوحنیفہ، امام محمد، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مالی جرمانہ درست نہیں ہے۔ (۳/۶۳۴)
درج بالا تمام فقہی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے سوا طرفین اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک مالی جرمانہ جائز نہیں ہے، جو فقہائے کرام عدمِ جواز کے قائل ہیں، وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مالی جرمانہ جائز ہونے کی صورت میں ظلم پیشہ حکام لوگوں کے مال کو بلا سببِ شرعی ہڑپ کر جائیں گے، یعنی ان فقہائے کرام نے سدّ ذریعہ کے اُصول کو اختیار کرکے مالی جرمانہ کو ناجائز قرار دیا