مسلمان کا مال بلاسببِ شرعی کے قبضہ کرے، ایسا ہی ’’ البحر الرائق‘‘ میں بھی ہے۔
(فتاویٰ ہندیہ: ۴/۱۶۷)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ’’ البحرالرائق‘‘ کی جس عبارت کا حوالہ ہے وہ یہ ہے:
’’ ولم یذکر محمد التعزیر بأخذ المال ، وقد قیل : روي عن أبي یوسف أن التعزیر من السلطان بأخذ المال جائز ۔ کذا في الظہیریۃ ۔ وفي الخلاصۃ : سمعت عن ثقۃ أن التعزیر بأخذ المال إن رأی القاضي ذلک ، أو الوالي جاز ، ومن جملۃ ذلک رجل لا یحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ بأخذ المال ۔ اہـ ۔۔۔۔ وفي ’’ البزازیۃ ‘‘ : ان معنی التعزیر بأخذ المال علی القول بہ إمساک شيء من مالہ عنہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ ، لا أن یأخذہ الحاکم لنفسہ ، أو لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ ؛ إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي ۔۔۔۔۔۔ والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال ‘‘ ۔
امام محمد رحمہ اللہ نے تعزیر بالمال کو ذکر نہیں کیا ہے، کہا گیا ہے کہ اما ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک تعزیر بالمال سلطان کے لیے جائز ہے، ایسا ہی ظہیریہ میں ہے، خلاصہ میں ہے کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا ہے کہ قاضی یا والی تعزیر بالمال کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، مثلاً کوئی شخص جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ہو، تو اس پر مالی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، بزازیہ میں ہے کہ جواز کے قول کی صورت میں مالی جرمانہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ مال لے کر روک لیا جائے گا، جب مجرم اپنے جرم سے تائب ہوجائے، تو اس کو واپس کردیا جائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ حاکم اپنے اپنے مصرف میں استعمال کرے، یا بیت المال میں جمع کرے، جیسا کہ بعض ظالموں کا خیال ہے، کیوں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ بلا سببِ شرعی کسی دوسرے مسلمان کا مال لے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مالی جرمانہ درست نہیں ہے۔ (البحر الرائق :۵/۶۸ ، ط : دار الکتاب دیوبند)