’’شرنبلالیہ‘‘ میں ہے کہ امام ابو یوسف کے قول پر فتویٰ نہیں ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں ظالم لوگ عوام کا مال ناجائز طور پر ہڑپ کرکے کھاجائیں گے۔ ابن وہبان کے حوالے سے ’’شرح وہبانیہ‘‘ میں بھی ایسا لکھا ہے۔ (رد المحتار:۶/۷۶، ط: دار الکتاب دیوبند)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں بھی اس مسئلے پر گفتگو موجود ہے، اور اس میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کونقل کرتے ہوئے کچھ تفصیل بھی کی گئی ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقہائے کرام تعزیرًا مال لینے کو صحیح نہیں سمجھتے، خود امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ایک وقتی چیز ہے، جسے بعد میں واپس کرنا ضروری ہے:
’’ وعند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال ، وعندہما وباقي الأئمۃ الثلاثۃ لا یجوز ۔ کذا في فتح القدیر ۔ ومعنی التعزیر بأخذ المال علی القول بہ إمساک شيء من مالہ عندہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ ، لا أن یأخذہ الحاکم لنفسہ أو لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي ۔ کذا في البحر الرائق ‘‘ ۔ (فتاوی ہندیہ :۲/۱۶۷، ط: زکریا)
امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مالی جرمانہ عائد کرنا سلطان کے لیے جائز ہے، طرفین اور باقی ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جائز نہیں ہے، ایسا ہی ’’فتح القدیر‘‘ میں بھی ہے، امام ابو یوسف جواز کے قائل ہیں، لیکن ان کے یہاں جواز کی صورت یہ ہے کہ جرمانہ کرکے مجرم کا مال ایک مدت تک روک لیا جائے، تاکہ مجرم اپنے جرم سے باز آجائے (جب وہ باز آجائے، تو پھر اسے واپس کردیا جائے) امام ابو یوسف کے قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حاکم اپنی ذات پر خرچ کرے، یا بیت المال میں جمع کردے، جیسا کہ ظلم پیشہ لوگ سمجھتے ہیں، کیوں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے