سے ایک ضعیف قول نقل کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک تعزیرًا مال لینا شرعاً جائز ہے۔ ’’در مختار‘‘ میں ہے: ’’ لا بأخذ مال في المذہب ۔ بحر ۔ وفیہ عن بزازیۃ ، وقیل : یجوز ، ومعناہ أن یمسکہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ لہ ، فإن أیس من توبتہ یصرفہا إلی ما یری ۔ وفي المجتبی : انہ کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ ‘‘ ۔ (الدر المختار مع الشامیۃ : ۱/۳۲۶)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے کہ مالی جرمانہ جائز نہیں، بحر ہی میں بزازیہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں (جو لوگ جواز کے قائل ہیں) اُن کا مطلب یہ ہے کہ جرمانہ کے مال کو ایک مدت تک روک کر رکھا جائے، پھر صاحبِ مال کو واپس کردیا جائے، اگر جرم سے باز رہنے کی اُمید نہ ہو،تو اس کو حاکم اپنی صواب دید کے مطابق خرچ کرے۔ مجتبیٰ میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے علاوہ اور تمام أئمہ کے نزدیک تعزیر بأخذ المال ناجائز ہے، علامہ کی عبارت یہ ہے:
’’ قولہ : (لا بأخذ مال في المذہب) قال في الفتح : وعن أبي یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال ، وعندہما وباقي الأئمۃ لا یجوز ، ومثلہ في المعراج ، وظاہرہ أن ذلک روایۃ ضعیفۃ عند أبي یوسف ، قال في الشرنبلالیۃ : ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ ، ومثلہ في شرح الوہبانیۃ عن ابن وہبان ‘‘ ۔ ’’فتح القدیر‘‘میں ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ مالی جرمانہ کو جائز سمجھتے ہیں، امام ابو حنیفہ او رامام محمد کے ساتھ بقیہ تینوں اماموں کے نزدیک جائز نہیں ہے، ’’معراج‘‘ میں بھی ایسا لکھا ہے،ظاہر یہ ہے کہ امام ابو یوسف سے جواز کی جو روایت ہے وہ ضعیف ہے ۔