اس مطالبہ کے تحت اس نے رشوت کی رقم قبول کی۔‘‘(ممکن ہے سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے یہ فیصلہ کسی دفعہ کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے سنایا ہو، جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مگر اسلامی نقطۂ نگاہ سے رشوت ؛ رشوت ہے ، خواہ اس کا مطالبہ کیا گیا ہو، یا نہ کیا گیا ہو، اور اس صورت میں بھی رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مجرم وگنہگار ہیں، جیسا کہ حضراتِ فقہائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کو اُس کے عہدے اور منصب پر پہنچنے کے بعد کوئی شئے ہدیہ میں دی جائے ، جب کہ پہلے سے اس ہدیہ دینے والی کی یہ عادت نہیں تھی، تو یہ بھی رشوت میں داخل ہے۔) (الموسوعۃ الفقہیۃ )
۲- ہمارا قانون شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے ، یا بحالتِ نشہ اپنی ڈیوٹی کے فرائض کو انجام دینے کی اجازت تو نہیں دیتا ، مگر شراب فروشی کو منع بھی نہیں کرتا، اور یہ کاروبار حکومت کے لائسنس کے ساتھ چلتا ہے۔
۳- ہمارا قانون کسی کی توہین وہتکِ عزت کی اجازت تو نہیں دیتا ، مگر حقِ آزادیٔ رائے کے سہارے اِسے پامال کرنے کی گنجائش ہے ، یہاں تک کہ اس حق کی حدود متعین نہ ہونے کی وجہ سے مذہبی پیشوا اور رہنما کی عصمت وعزت بھی محفوظ نہیں ۔
۴- ہمارا قانون خواتین سے چھیڑ چھاڑکو سخت گناہ گردانتا ہے، مگر مردوں اور عورتوں کے اختلاط پر کوئی پابندی نہیں، اور نہ ہی عورتوں کو ایسے کپڑے پہننے سے روکتا ہے، جن کی وجہ سے مرد اُن کی طرف مائل ہوکر اِس گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔
۵- ہمارے قانون میں قتل وخون ریزی اور مذہب کی بنیاد پر اشتعال انگیزی تو جرم ہے ، مگراہلِ اقتدار کے عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شرپسند عناصر کو اس کی کھلی اجازت ہے، حد تو یہ ہے کہ بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اور برسرِ اقتدار شخصیتیں اس طرح کے