۷- اس نے نسلِ اسانی کو تحفظ عطا کیا ، توان تمام طریقوں اور ذرائع کو بھی ممنوع قراردیا ، جن سے اس میں خلل واقع ہوتا تھا، مثلاً دو ہم جنسوں کے درمیان جنسی تعلق اور اسقاطِ حمل وغیرہ کاحرام ہونا۔
۸- اس نے تحفظ نسب کویقینی بنایا، تو ان ذرائع کو بھی سختی سے منع کیا جن سے یہ مقصد متاثر ہوتا تھا، مثلاً وقتِ واحد میں ایک ہی عورت کا دو مردوں کے نکاح میں ہونا، دوسرے کی منکوحہ یا اس کی معتدہ سے نکاح کرنا وغیرہ۔
اس کے برخلاف! جب ہم اپنے ملکی قوانین اور اُن پر عمل درآمد پر نظر کرتے ہیں، تو ایک عجیب قسم کا تضاد دکھائی دیتا ہے،مثلاً :
۱- ہمارے ملکی قانون میں رشوت لینا تو منع ہے، لیکن رشوت دینا منع نہیں، اور اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک رشوت وبدعنوانی کے معاملہ میں پوری دنیا میں آٹھویں درجے پر پہنچ چکا ہے، اور آئے دن نئی نئی بد عنوانیاں اخباروں کی شہ سرخیاں بنتی جارہی ہیں، جو لاکھوں اور کروڑوں روپیوں کی نہیں ، بلکہ ایک ہزار کروڑ، دو ہزار کروڑ جیسی خطیر رقومات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا اُردو ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۲ء کی یہ تحریر پڑھ کر تعجب ہوا کہ ملک کی عدالتِ عالیہ( سپریم کورٹ)نے اپنے ایک فیصلہ میں یہ کہا :
’’ اگر سرکاری اہل کار نے رشوت کی مانگ نہیں کی ہے، لیکن کسی نے اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی تھمادی ، تو ایسے حالات میں اُسے بدعنوانی کا ملزم نہیں ٹھہرایا جاسکتا، رشوت کا مطالبہ انسدادِ بد عنوانی ایکٹ ۱۹۸۸ء کا لازمی حصہ ہے، رنگے ہاتھ پکڑے گئے سرکاری اہل کار کے خلاف یہ ثبوت ضروری ہے کہ اس نے رشوت کا مطالبہ کیا،اور