افراد کی نہ صرف پشت پناہی کرتی ہیں، بلکہ ان کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں، اور اب تو ایک عرصہ سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنا پارٹی امیدوار نام زد کرکے انہیں انتخابات میں اُتار رہی ہیں، اور اُن کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں، نتیجتاً اسی طرح کے افراد منتخب ہوکر ایوانِ بالا وایوانِ زیریں کے اراکین بنتے جارہے ہیں۔
اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۲ء کے اُردو روزنامہ’’ انقلاب‘‘ کی یہ خبر کافی ہے کہ:
’’ ۳۶۹؍ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی پر خواتین کے خلاف جرائم کا الزام ہے ‘‘
۶- ہماری حکومت اور ہر شہری کی یہ چاہت ہے کہ ہندوستان کا ہر باشندہ با اخلاق ، باکردار اور اچھا شہری بنے، مگر اخلاق وکردار کو تباہ وبرباد کرنے والی تحریروں ، فلموں اور ڈراموں کی نہ صرف کھلی چھوٹ ہے ، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہماری وہ نئی نسلیں جنہیں ہم اپنا مستقبل سمجھتے ہیں، انہیں پڑھائے جانے والے نصابِ تعلیم میں جنسی مضامین کو شامل کرکے،اُن کو غلط راہوں کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے، اور پھر اُن سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مہذب، با اخلاق اور اچھے کردار والے انسان بنیں، یہ سب تضادات ہیں ، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہندوستان جیسا امن وآشتی ، اخوت و بھائی چارگی میں مثالی ملک دن بدن خطرناک بد امنی وانارکی کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس سے بے چین ہوکر حقیقت پسند طبیعتیں یہ پکار اُٹھ رہی ہیں کہ اگراس دھرتی کو جرائم سے پاک کرکے امن وامان کو بحال کرنا ہو ، تو اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں، جیسا کہ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کا اُردو روزنامہ’’ انقلاب‘‘ کی یہ تحریر اس کا ثبوت ہے: