اور اس کے تمام ذرائع ممنوع ہوں ، کیوں کہ کسی بھی جرم کا انسداد اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے ذرائع بھی ممنوع قرار پائیں، مثلاً :
۱- شریعتِ اسلامیہ نے جہاں زنا کوحرام قرار دیا ، وہیں اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت اور تنہائی اختیار کرنے کوبھی حرام کہا، کیوں کہ یہ خلوت زنا میں وقوع اور فتنہ کے حدوث کا ذریعہ ہے۔
۲- اس نے رشوت لینے کوحرام قرار دیا ، تو رشوت دینے کو بھی حرام گردانا، کیوں کہ یہ رشوت لینے والے کے فعلِ حرام میں اُس کا تعاون ہے۔
۳- اس نے جان کے تحفظ کو فرض قرار دیا ، تو وہ تمام ذرائع جو انسان کو ہلاک کرسکتے تھے، انہیں بھی ممنوع قرار دیا، مثلاً زہر خوری ، خود کشی ، قتلِ ناحق وغیرہ۔
۴- اس نے عقلِ انسانی کے تحفظ کو ضروری قرار دیا، تو جو چیزیں اس میں مخل ہوسکتی تھیں، انہیں بھی ممنوعات کے دائرہ میں لے آئی ، جیسے منشیات کا استعمال اور شراب نوشی وغیرہ۔
۵- اس نے انسان کی عزت کو تحفظ عطا کیا ، توجن چیزوں سے اُس کی ذات ، یا اس کے آباء واجداد ، یا حسب ونسب اور نیک نامی پر کوئی حرف آتا ہو،انہیں بھی نہ صرف منع کیا بلکہ اس پر سخت سزا تجویز کی کہ اگر کوئی انسان کسی پر زنا کی تہمت رکھے اور اُسے شرعی طریقہ سے ثابت نہ کرسکے، تو اُسے ۸۰؍ کوڑے لگائے جائیں۔
۶- اس نے انسان کے مال کو تحفظ دیا ، تو اس چیز کو نہ صرف گناہ کہا، بلکہ اس پر سخت سزا بھی متعین کردی، جس سے اس میں رخنہ اندازی ہوتی تھی، مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا، اور اس کی رہبری ورہنمائی کا سنگین جرم ہونا۔