اسی طرح تکفیر کے باب میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ لزومِ کفر اور التزامِ کفر میں فرق ہے، اور وہ یہ کہ اگر کسی آدمی نے ایسا کلمہ بول دیا جس سے کفر لازم آتا ہے، لیکن اس نے اس کا التزام اپنے اوپر نہیں کیا، یعنی بے خیالی میں کلمۂ کفر بول دیا، اگرچہ یہ کلمہ ، کلمۂ کفر ہے، لیکن چوں کہ اس نے اپنے اوپر اس کا التزام نہیں کیا، اس لیے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا، ہاں! اگر وہ یہ کہے کہ میرا مقصد کفر ہی ہے، توپھر وہ کافر ہوجائے گا۔
فقہ وفتاویٰ کی کتابوں (مثلاً ؛مالابدمنہ ، فتاویٰ ہندیہ وغیرہ) میں اس سلسلے میں پورے پورے ابواب ہیں، جن میں بہت سارے جملے لکھے گئے ہیں کہ کسی نے یہ جملہ کہہ دیا تو وہ کافر ہوجائے گا، اور کسی نے یہ جملہ کہا تو وہ کافر ہوجائے گا، ان کا حاصل بھی یہی ہے کہ یہ جملے کلماتِ کفر تو ہیں مگر محض اُن کے بولنے پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا، بلکہ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس نے یہ بات کن حالات میں ، کس صورت میں؟ کس ماحول میں؟ اور کس سیاق میں کہی ہے؟ اور اس کی مراد کیا ہے؟
..............................
الحجۃ علی ما قلنا :
ما في ’’ تفسیر البیضاوي ‘‘ : وفي الشرع : انکار ما علم بالضرورۃ مجيء الرسول بہ وإنما عدّ منہ لبس الغیار وشدّ الزنّار ونحوہما کفرًا ، لأنہا تدل علی التکذیب ، فإن من صدق رسول اللّٰہ ﷺ لا یجترئ علیہا ظاہرًا لا لأنہا کفر في أنفسہا ۔ (ص/۲۳ ، سورۃ البقرۃ)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : والکفر شرعًا : ہو انکار ما علم ضرورۃ أنہ من دین محمد ﷺ کإنکار وجود الصانع ، ونبوتہ علیہ الصلاۃ والسلام وحرمۃ الزنا ونحو ذلک ۔
(۳۵/۱۴ ، کفر ، المنثور في القواعد للزرکشي :۳/۸۴ ، ط : الشئون الإسلامیۃ بالکویت)
ما في ’’ الشرک باللّٰہ تعالی ‘‘ : وأما في الاصطلاح : فقد تنوعت عبارات العلماء في تعریف الکفر : یقول ابن تیمیۃ : الکفر : عدم الإیمان باتفاق المسلمین ، سواء اعتقد=