اقدامی صورت کی بابت شرعی نقطۂ نظر سے ہماری رائے یہ ہے کہ شرعاًیہ بالکل جائز نہیں ہے، کیوں کہ:
اولاً:… تو ان حکومتوں کو ان عوامل اور محرکات کا جائزہ لینا چاہیے تھا، جن کی وجہ سے پوراعالم کرب واضطراب میں مبتلاہے،ان کی وہ کو ن سی حکمتِ عملی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں حق و عدل پرست لوگ ان کے خلاف ہوتے جارہے ہیں، او ر ان کے وجود کو حق وانصاف کا قاتل خیال کرکے اس کو فناکرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
ثانیاً :…انہیں اس پر غور کرنا چاہیے تھا کہ کیا کسی ممکنہ خطرے کو دفع کرنے کے لیے اس طرح کی بے حیائی وبے شرمی پر مبنی حفاظتی تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے؟ کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ’’ کسی بھی ضرر ونقصان کو اسی کے برابر یا اس سے بڑے ضرر کو اختیار کرکے زائل وختم کرنا جائز نہیں ہوتا‘‘۔ الضرر لا یزال بمثلہ ۔(درر الحکام :۱/۴۰ ، المادۃ :۲۵) الضرر تجوز إزالتہ بضرر یکون أخف منہ ولا یجوز أن یزال بمثلہ أو بأشد منہ ۔ (درر الحکام :۱/۴۰ ، تحت مادۃ :۲۷)
نیزیہ صرف اسلامی اصول ہی نہیں بلکہ عقلِ انسانی بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
ثالثاً : … ان حکومتوں کو چاہیے تھا خطروں سے نپٹنے کے لیے کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ، جو اس طرح کی بے حیائی وبے شرمی اور کسی کو محض شک وشبہ کی بنا پر ذلیل ورسوا کرنے کی حماقت سے خالی وعاری ہوتی، اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے، کیوں کہ ایسی ایسی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں کہ آپ اپنے گیلے ہاتھوں کو اس کے نیچے کردو، تووہ گرم ہواکو خارج کرکے آپ کے ہاتھوں کو خشک کرتی ہیں، آپ دروازے پر پہنچ جائے تو دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے،اور آپ گھر میں بیٹھ