تھیئٹروں اور سنیما ہالوں میں دکھا ئیں گے، اور توہینِ رسالت و خلفائے راشدین وامہات المؤمنین وغیر ہ کے اس سیلا بِ عظیم کی زد میں اور کون کون آئے گا، ہم بتلا نہیں سکتے، اور نہ اس وقت اسے روکنا ہمارے بس میں ہو گا، جب کہ ان کی عزت و عظمت ناموس و عصمت ہمارے ایمان کا جز ہے۔ بعض خود ساختہ دانش وروں کی طرف سے یہ باتیں کی جارہی ہیں: (۱) کبھی شر میں خیر کا پہلو بھی ہو تا ہے۔
(۲)اس طرح کی فلم بنا نے،دکھانے اور دیکھنے سے ہمارے بچے حضراتِ صحابہ کو آئیڈیل بنا ئیں گے، واقعات اسلام سے واقف ہو ں گے ، اور گانوں کو گنگانے کی بجائے اسلامی ترانے ا ن کی زبان پر ہوں گے۔
(۳) گناہوں کے امڈتے ہوئے سیلا ب کے لیے اس طر ح کی فلمیں بڑا بند تو نہیں، لیکن ریت کا ذرّہ ضرور ثابت ہوں گی، اوربڑا بند باندھنے میں ریت کے ذرّہ کی جوبنیادی اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔
(۴)اور… اخلا ق سوز فلموں کے طوفان میں یہ فلم’’ نعم البدل‘‘ ہے۔
(۵) ہم ہزار کو ششوں کے باوجود نہ مسلمانوں کو فلموں اور نغموں سے روک پائے ہیں، اور نہ ٹی وی اورسی ڈی پلیئر کو گھرلانے سے، اس لیے اس کے جواز میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طر ح کی باتیں بد ترین شیطانی دھوکہ اور مزاجِ شریعت سے نا واقفیت وجہالت کی شہادت اوراس کی پیداور ہیں۔ ان کے اس غلط طرزِ استدلا ل پر ہم یہ کہیں گے:
(۱)شر میں خیر کا پہلو اس وقت ہو تا ہے، جب کہ و ہ غیر اختیاری ہو، نہ کہ اختیاری، ورنہ آدمی خیر کو چھوڑ کر شر ہی کو اختیار کرے گا کہ اس میں خیر کا بھی پہلو ہو تا ہے۔
(۲) اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابۂ کرام کو نمونہ اور آئیڈیل بنانے کی