دعوت ضرور دیتا ہے، لیکن ایسا آئیڈیل جو فلموں اورسنیما گھروں کی راہ سے آئے وہ آئیڈیل کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔
(۳) برائیوں کے سیلاب کو روکنے کے لیے خیرِ قلیل کی مثال بڑے بند باندھنے کے لیے ریت کے ذرّہ کی حیثیت ضرور رکھتا ہے ، مگر معصیت کو خیرکہہ کر قبول کرنا معقول ومنظور نہیں ہو سکتا۔
(۴)فلم ’’ الرسالۃ ‘‘ کو ’’اعظم السیئات‘‘ تو کہنا صحیح ہے، لیکن ’’نعم البدل‘‘ نہیں ما نا جاسکتا ، کیوں کہ عام فلمیں اخلاق سوز ہیں، جب کہ اس طرح کی فلمیں ایمان سوز ہیں، اور ایمان سوزی قباحت میں اخلاق سوزی سے کہیں بڑھ کر ہے۔
(۵) اگر ہم مسلمان کو برائیوں سے نہیں روک سکے، تو یہ کچھ حدتک تو صحیح مانا جاسکتا ہے، مگر اس کی وجہ سے ناجائز و حرام کو جائز ومباح کہنا، اور کسی امرِ معصیت میں ابتلائے عام سے اس کی معصیت طاعت میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔
عام لوگو ں کو احکامِ اسلام میں اس طر ح کی رائے دہی سے اجتناب ضروری ہے، کیوں کہ اسلام نا م ہے پور ی طرح احکامِ اسلام کے سامنے اپنی گردن جھکادینے کا۔
الإسلام : ہو الخضوع والانقیاد لما أخبر بہ رسول اللّٰہ ﷺ ۔
(کتاب التعریفات للجرجاني :ص/۱۹)
وقال اللّٰہ تعالی في کلام المجید : {یٰٓا ایہا الذین اٰمنوا ادخلوا في السلم کآفّۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطٰن انہ لکم عدو مبین} ۔ اے ایمان والو! اسلام میں پور ے ـپورے داخل ہو جاؤ،اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا ہو ادشمن ہے۔
(سورۃ البقرۃ :۳۰۸)