عمل کی حرمت اور برائی اس لیے دورنہیں ہو جائے گی کہ اس کا مقصد اچھا ہے ، اور نہ نیک مقصد کی خاطر حرام ذرائع کا استعمال کرنا صحیح ہے۔ ‘‘ (فتاویٰ قاضی :ص/ ۱۱۰)
حکیم الامت حضرت مولانا اشر ف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شریعتِ اسلامیہ میں جاندار کی تصویر بنا نا مطلقاًمعصیت ہے، خواہ کسی کی تصویر ہو، اور خواہ مجسمہ ہو یا غیر مجسمہ ، کسی مسلمان کی تصویر بنا نا اور زیاد ہ معصیت ہے کہ اس میں ایسے شخص کو آلۂ معصیت بنا نا ہے، جو اس کو اعتقاداً قبیح (برا)جانتا ہے۔
مقصود کی مشروعیت اباحت کو مستلز م نہیں: جب ایسی فلموں کے قبائح معلوم ہو گئے، تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ بقدر اپنی قدرت کے گووہ قدرت حکومت سے استعانت ہی کے طور پر ان کے انسداد (روک تھام) میں کوشش کریں، اور تما م دیکھنے والوں کو ان قبائح پر مطلع کر کے شرکت سے روکیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ سب عقابِ خداوندی میں گرفتار ہوں۔ (امداد الفتاویٰ: ۴/۲۵۷-۲۶۱)(کنز العمال: ۳/۳۱ ،حدیث: ۵۵۱۸)
مفتی اعظم حضر ت مولانا کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سینما (بائسکوپ) محض لہو و لعب ہے ، ہر حال میں اس کا دیکھنا ناجائز ہے ۔ ’’ ودلت المسئلۃ أن الملاھي کلھا حرام ‘‘ ۔ (رد المحتار :۹ /۵۰۲)(کفایت المفتی: ۹/۲۰۱،۲۰۲)
الغرض! فلم بینی فی نفسہٖ مطلقاً ناجائز ہے، اور جب اس فلم میں واقعات و شخصیاتِ اسلام کو فرضی کر دارو ں کے سا تھ فلما یا گیا ہو، تو اس کی قباحت وشناعت انتہائی بڑ ھ جاتی ہے ،کیوں کہ اسلام اور تاریخ اسلام کے ساتھ یہ انتہائی بد تر ین و سنگین قسم کا مذاق ہے ، کیوں کہ آج اس فلم میں بعض واقعات وشخصیاتِ اسلام کو فلما یا گیا ،کل یہی لوگ پیغمبر اسلام، خلفائے راشدین اور امہا ت المؤمنین وغیرہ کی غلط فرضی شبیہ فلماکر