یصنعون ہذہ الصور یعذبون یوم القیامۃ ، یقال لہم : احیوا ما خلقتم ‘‘ ۔
(صحیح البخاري :۲/۸۸۰)
دوسری جگہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ کل مصور في النار‘‘ ۔ ہر تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا۔(کنز العمال: ۴/۱۷، حدیث :۹۳۷۴، مشکوۃ المصابیح :ص/ ۳۸۵)
تصویر کشی صر ف اس کانام نہیں کہ فلم سے تصویر بنائی جائے، یا پتھر وغیر ہ کا بت تراشا جائے، بلکہ و ہ تمام صورتیں تصویرکشی میںداخل ہیں جن کے ذریعے تصو یر تیار ہو تی ہے، خواہ آلاتِ قدیمہ کے ذریعے ہو، یا آلات جدیدہ؛فوٹو گرافی اور طباعت و غیرہ سے، کیوں کہ کسی بھی کام میںآلات مقصود نہیںہوتے،بلکہ مقصد اصل ہو تا ہے اور احکام کا تعلق بھی مقصد ہی سے ہوتا ہے۔’’ الأمور بمقاصدھا ‘‘۔ (الأشباہ:۱/۱۱۳)
احکامِ اسلام پر غور فکرکر نے سے یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ شریعت نے جن چیزوں کو فرض وواجب قرار دیا، اُن کے اسباب و ذرائع بھی فر ض وواجب قرار دیئے، تاکہ فرضیت ووجوب قائم رہ سکے، اور جن چیزوں کو حرام قرار دیا اُن کے ذرائع واسباب کو بھی حرام قراردیا، تاکہ حرمت و ممانعت قائم رہ سکے، اسی کوفقہاء کی اصطلاح میں سدّ ذرائع کہا جاتا ہے۔ (اعلام الموقعین :۳/۱۷۵، الفروق للقرافي :۳/۴۰۶)
تصویر سازی حرام ہے ۔ اور جو کام ناجائز وحرام ہیں، وہ مقصد کے اچھا ہو نے سے جائزو مباح نہیں ہو سکتے ، مثلاً: اگر کوئی آدمی اس لیے سودی کار وبار کرے کہ اس سے نفع حاصل ہو نے والے منافع کو اشاعتِ دین میں خرچ کروں گا، یا اس لیے بدکاری کرے کہ اس سے ہو نے والی اولاد کو جہاد میں بھیجوں گا، تو اس کی حسنِ نیت سے عملِ بد کی بدی ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ عمل شر عاً ناجائز و حرام ہی رہتا ہے۔
فقیہ عصر، مجاہد ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی