نہ کہ سودی رقم حاصل کرنے والے کی طرف سے، اس لحاظ سے اپنے اصول وفروع کو زکوۃ دینے کی جو علتِ ممانعت تھی،وہ یہاں نہیں پائی جاتی، اور جب علت نہیں پائی گئی تو اس کا حکم یعنی عدم جواز بھی ثابت نہ ہوگا،اور آدمی کے لیے بینک سے حاصل شدہ اپنی سودی رقم اپنے اصول وفروع کو دینا جائز ہوگا۔
بندے کے اِس نقطۂ نظر کی تائیدمفتی ٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریر سے ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’ مالِ حرام جس کا صدقہ کرنا واجب قرار دیا جاتا ہے ، وہ ہر مالِ حرام نہیں، بلکہ صرف وہ مالِ حرام ہے جس کے مالک نامعلوم یا لاپتہ ہونے کی وجہ سے مالک کو واپس نہیں کیا جاسکتا، نیز یہ کہ یہ مال ایسی صورت میں بحکم لقطہ ہوجاتا ہے اور اصل مالک کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے، اس لیے فقراء کو اس کا لینا جائز ہے، ان کے لیے یہ حرام نہیں، اور اسی بنا پر ایسے اموال کا صدقہ اپنے ماں باپ اور اولاد اور بیوی پر بھی کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کا صدقہ نہیں، بلکہ اصل مالک کا ہے، کما فی عبارۃ الہندیۃ۔‘‘
(جواہر الفقہ:۳/۲۸۲، مکتبہ تفسیر القرآن جامع مسجد دیوبند)
’’ وسئل یوسف بن محمد عن غاصب ندم علی ما فعل وأراد أن یردّ المال إلی صاحبہ وقع لہ الیأس عن وجود صاحبہ فتصدق بہذا العین ، ہل یجوز للفقیر أن ینتفع بہذا العین ؟ فقال لا یجوز أن یقبلہ ولا یجوز لہ الانتفاع وإنما یجب علیہ ردّہ إلی من دفعہ إلیہ ، قال رضي اللّٰہ عنہ انما أجاب بہذا الجواب زجرًا لہم کیلا یتساہلوا في أموال الناس ، أما لو سلک الطریق في معرفۃ المالک فلم یجدہ فحکمہ حکم اللقطۃ ۔۔۔۔ کذا في التتارخانیۃ ‘‘ ۔
(ہندیہ :۵/۱۵۷، کتاب الغصب ، الباب الرابع عشر في المتفرقات ، مکتبہ زکریا دیوبند)
لیکن ہوسکتا ہے کہ صورتِ مذکورہ کے اِس اصل جواب سے لوگ اپنی سودی رقم اپنے