اُن اصول وفروع کو بھی دینا شروع کردیں جو خود اُن کی اپنی کفالت میں ہیں، اور اس طرح خود اپنی سودی رقم سے فائدہ اٹھانے لگ جائیں، اور سود کے استعمال کا دروازہ کھل جائے،اس لیے’’ سدًا للذرائع‘‘ احتیاط اسی میں ہے کہ اپنی سودی رقم اپنے اصول و فروع (ماں باپ، دادا،دادی،نانا ،نانی، بیٹا،بیٹی وغیرہ) اور عزیز واقارب کو بھی نہ دیں۔ اور اس نقطۂ نظر کی تائید بھی حضرت مولانا یوسف صاحب لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں موجوداس سلسلے میں ایک سوال وجواب سے ہوتی ہے:
’’ سوال: کسی مجبوری کی بنا پر میں نے سود کی کچھ رقم وصول کرلی ہے، اس کا مصرف بتادیں، آیا میں وہ رقم اپنی غریب رشتہ داروں (مثلاً نانی) کو بھی دے سکتا ہوں؟
جواب: اپنے عزیز واقارب کے بجائے کسی اجنبی کو، جو غریب ہو، بغیر نیت صدقہ کے دیدی جائے۔‘‘ (۷/۳۴۰، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
خلاصۂ کلام یہ کہ بینک سے حاصل شدہ اپنی سودی رقم اپنے اصول وفروع اور عزیز واقارب کو دینا جائز تو ہے ، مگر احتیاط اسی میں ہے کہ نہ دیں۔فقط
ہذا ما ظہر لي واللّٰہ أعلم بالصواب !