اولاد ، خواہ کتنے ہی نچلے درجہ کے ہوں- کو زکوۃ دینا درست نہیں، تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن کے نزدیک بینک سے ملی ہوئی اپنی سودی رقم اپنے مستحق ومحتاج اصول وفروع کودینا بھی جائز نہیں ہوگا؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اپنے اصول وفروع کو زکوۃ دینا کیوں منع کیا گیا؟ اس کی علت اور وجہ کیا ہے؟ تو اس بابت امام فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ:
’’اصول وفروع کے درمیان منافع میں ایک طرح کا اتصال ہوتا ہے،کہ وہ عادۃًایک دوسرے کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے تملیک کا تحقُّق پوری طرح نہیں ہوپاتا ۔‘‘ (تبیین الحقائق :۲/۱۲۲، کتاب الزکاۃ)جب کہ زکوۃ میں تملیک (مالک بنانا) ادائے زکوۃ کی صحت کا رکن ہے،اس لیے اپنے اصول وفروع کو زکوۃ دینا درست نہیں۔
علامہ زیلعی رحمہ اللہ کے اس کلام سے معلوم ہواکہ اصول وفروع کو زکوۃ دینا اس لیے منع ہے کہ اس میں پوری طرح سے تملیک نہیں پائی جاتی۔
اب آئیے اصل مدعا پر ،یعنی بینک سے ملی ہوئی اپنی سودی رقم اپنے مستحق ومحتاج اصول وفروع کودینا جائز ہے یا نہیں؟ تواس سلسلے میں بندے کا اپنا رجحان یہ ہے کہ : ’’ یہ جائز ہے‘‘کیوں کہ بینک سے جو رقم بطور سود ملتی ہے ،آدمی اُس کا مالک نہیں ہوتا، اور نہ اس کا اصل مالک معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُسے لوٹائی جاسکے، تو یہ رقم لقطہ کے حکم میں ہوگئی، جسے اس کے اصل مالک کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے، نہ کہ سودی رقم حاصل کرنے والے کی طرف سے،اوریہاں تملیک اصل مالک کی طرف سے ہورہی ہے،