اسلام مخالف علاقوں کا تعاون لازم آتا ہے، اس لیے حضرات فقہائے کرام نے فقہی قاعدہ : ’’ جو شخص دو بلاؤں میں گرفتار ہو اسے چاہیے کہ کم ضرر والی بلا کو اختیار کرے‘‘ کے تحت یہ حکم فرمایا کہ سودی رقم بینک سے لی جائے، لیکن ہے تو یہ مالِ حرام ، اور مالِ حرام پر قبضہ کرنے سے ، قبضہ کرنے والا اس کا مالک نہیں بنتا، بلکہ اس کا جو اصل مالک ہے وہی اس کا مالک رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر اصل مالک معلوم ہو تو مال حرام اس کو واپس کرنا ضروری ہے،اگر وہ نہ ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹانا لازم ہے، اور اگر اصل مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹانا مشکل ہو، (جیسے بینکنگ کا موجودہ نظام، اس میں یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ ڈپازٹرDepositer کی رقم کس شخص کو سودی قرض میں دے کر اس سے یہ سود حاصل کیا گیا، کہ اسے یہ سودی رقم لوٹائی جاسکے)،تو اس صورت میں یہ سودی رقم اصل مالکوں کی طرف سے غرباء اور محتاجوں کو صدقہ کردینا واجب ہے، جب کہ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ یہ سودی رقم رفاہِ عام کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے، جیسا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار کی اس تجویز سے معلوم ہوتا ہے:
’’ اکثرشرکائے سمینار کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کو صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رفاہِ عام پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، بعض حضرات کی رائے میں اس کے مصرف کو فقراء ومساکین تک محدود رکھنا چاہیے۔‘‘
(دوسرا فقہی سمینار[ دہلی]، بتاریخ: ۸-۱۱ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ھ مطابق:۸-۱۱ دسمبر ۱۹۸۹ء)
اب وہ حضرات علمائے کرام جن کے نزدیک اس رقم کا صدقہ کرنا ہی واجب ہے، اور رفاہی کاموں میں اس کا استعمال درست نہیں، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ سودی رقم مستحقین زکوۃ کو دینا ضر وری ہے۔ اور آدمی کا اپنے اصول وفروع؛ یعنی باپ، دادا، دادی، ماں ، نانا، نانی ، خواہ وہ کتنے ہی اوپر کے درجہ کے ہوں ، اور اپنی اولاد اور اولاد کی