لے کر اسے ختم کرنے کی مذموم ومسموم کوشش میں لگی ہوئی ہے، جو در حقیقت یکسا سول کوڈ کی راہ کو ہموار کرنا ہے، تاکہ تمام ہندوستانیوں کے لیے یکسا قانون کا نفاذ ہوجائے، اور مسلمان اپنے دین وشریعت پر عمل نہ کرسکیں، اور ہندو تہذیب وثقافت میں ضم ہوکر اپنے اسلامی تشخص وامتیاز سے محروم ہوجائیں، حکومتِ وقت کی یہ کوشش ملک میں موجود اقلیتوں کو اُن کے دستوری حقوق سے محروم کردینے کے ایک طویل ناجائز وناپاک منصوبے کا حصہ ہے، جسے عملی جامہ پہنانے میں وہ بے چین وبے قرار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے تین طلاقوں اور تعددِ اَزواج کے خلاف ملک کی عدالتِ عالیہ میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے، اور عدالتِ عالیہ کے لاء کمیشن نے اسی کی ہدایت پر ایک سوال نامہ جاری کرکے مسلمانوں سے اس سلسلے میں اُن کی رائے طلب کی ہے، کہ وہ ان دونوں اسلامی قوانین کے موافق ہیں یا مخالف ؟!…اِن نازک حالات میں ہم مسلمانوں کے کتاب وسنت پر ایمان ، اور اللہ واُس کے رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بیک آوازو باتفاقِ رائے، عدالتِ عالیہ کو یہ باور کرائیں کہ کتاب وسنت اور اس سے ثابت احکام پر ہمارا ایمان ویقین ہے،اور اُس پر عمل کرنا ہمارا دستوری حق ہے۔ لہٰذا !ہم اِن قوانینِ اسلام میں مُداخَلت ، اور دستوری حق کو چھیننے کی کسی بھی کوشش کو، کسی صورت میں اور کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔
..............................
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {الطلاق مرّتٰن} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۲۹)
ما في ’’ روح المعاني ‘‘ : عن عروۃ قال : کان الرجل إذا طلق امرأتہ ثم ارتجعہا قبل أن تقضي عدتہا کان ذلک لہ ، وإن طلقہا ألف مرۃ ، فعمد رجل إلی امرأتہ فطلقہا حتی إذا ما شارفت انقضاء عدتہا ارتجعہا ثم طلقہا ، ثم قال : واللّٰہ لا آویک إليّ ولا تخلینّ أبدًا ، فأنزل اللّٰہ تعالی الآیۃ ۔=