کسی وقت اسلام میں نہیں روکا گیا، بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ سورۂ نساء کی پہلی آیت میں امورِ اختیاریہ کے عد ل ومساوات کا ذکر ہے، اور دوسری آیت میں محبت اور قلبی میلان میں عدمِ مساوات پر قدرت نہ ہونے کا بیان ہے، اس لیے دونوں آیتوں میں نہ کوئی تعارض ہے، اور نہ ان آیات میں مطلقا تعددِ اَزواج کی ممانعت کی کوئی دلیل ہے۔(۲۳)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ؛ ایک مجلس میں تین طلاقیں خواہ ایک ساتھ دی گئی ہوں، یا علیحدہ علیحدہ بہر حال تین ہی واقع ہوتی ہیں، یہ حکم کتاب وسنت، اجماعِ امت اور قیاس؛ چاروںدلائلِ شرعیہ سے ثابت ہے، یہی چاروں اماموں؛ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی امام احمد بن حنبل اور جمہور فقہاء ومحدثین کا مسلک ہے۔اسی طرح جو شخص بیویوں کے درمیان عدل وانصاف قائم رکھ سکتا ہے، اس کے لیے متعدد (چار ) بیویاں رکھنا جائز ہے۔
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا تین واقع ہونا، اور مرد کے لیے کئی(بیک وقت چار) بیویاں رکھنے کا جائز ہونا، یہ دونوں ایسے حکم شرعی ہیں کہ وہ کتاب وسنت سے ثابت ہیں، اور کتاب وسنت ہم مسلمانوں کی شریعت کا سرچشمہ ہیں، اس سے ثابت احکام میں قیامت تک کسی قسم کی تبدیلی جائز ورَوا نہیںہے، اور نہ ہی کسی فرد، ادارہ، حکومت وعدالت کو شریعت نے اس کا حق دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد جب دستورِ ہند ترتیب دیا گیا، تو ہمارے بزرگوں نے مسلمانوں کے لیے کتاب وسنت پر عمل کی آزادی کو ان کا دستوری حق تسلیم کروایا۔ لیکن موجودہ حکومت، سماجی اصلاحات، عورتوں کی ہم دردی وہم نوائی ، عزت وحمایت اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کا سہارا